سوال (3183)
میت کی طرف سے کنواں نکلوایا جا سکتا ہے، روزے رکھے جا سکتے ہیں۔ حج کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاؤہ اور کیا کیا چیز ہے جس کا اس کو فائدہ ہوتا ہے؟ دلیل کے ساتھ راہنمائی درکار ہے۔
جواب
آپ کے مسائل اور ان کا حل، از مولانا مبشر احمد ربانی رحمہ اللہ جلد دوم صفحہ : 257 میں مضمون بعنوان “ایصال ثواب کی شرعی حیثیت” ملاحظہ فرمائیں، انہوں نے تفصیلی گفتگو کی ہے اور ایصال ثواب کی جائز صورتیں ذکر کی ہیں۔
فضیلۃ العالم سید کلیم حسین شاہ حفظہ اللہ
شرعی طور پر فوت شدگان کے لیے دعا ثابت ہے۔
[صحیح مسلم: 2255]
اسی طرح میت کی طرف سے صدقہ ثابت ہے۔
[صحیح البخاری: 2756]
کسی خاص صورت میں میت کی طرف سے فرضی حج/عمرہ کا جواز بیان کیا جا سکتا ہے۔
[صحیح البخاری: 7315]
میت کی طرف سے باقی فرض روزے بھی رکھیں گے ورثاء۔
[صحیح البخاری: 1953]
لیکن میت کی طرف سے نماز پڑھنے یا میت کو قرآن پڑھ کر بخشنے، اس کے ایصال ثواب کے لیے ختم، قران خوانی کا تصور دین اسلام میں نہیں۔ نہ ہی اس بدعت سے میت کو کچھ فائدہ ہوگا البتہ بدعت کی وجہ سے وبال ضرور ہوسکتا ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فضیلۃ الباحث احمد بن احتشام حفظہ اللہ
روزے اور حج ایسی صورت میں ہے جب کہ اس پر ہوں اور وہ نہ ادا کر سکا ہو، جیسے نذر کے روزے وغیرہ، ایسا نہیں کہ آدمی روزے رکھتا ہی نہیں تھا یا جان بوجھ کر حج نہیں کیا تو اس کی جانب سے یہ فرائض ادا کرنا درست نہیں، باقی کنواں کھدوانا کی مثال اس کی جانب سے صدقہ کرنے کی ہے اسی قبیل کے دیگر صدقات جاریہ بھی ادا کیے جا سکتے ہیں۔
مثلا مسجد بنوانا، قران لگ کر مسجد ہو دینا وغیرہ وغیرہ، بس اس میں اہم بات جو سمجھنے کی ہے، وہ ہے کہ ایصال ثواب اور کسی کی جانب سے نیابتا عبادت کرنا الگ الگ شی ہے۔
فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ