مبینہ ذرائع کے مطابق 16 اگست 2023ء، بروز بدھ، جڑانوالہ شہر کے علاقے عیسی نگری کے محلے کی ایک نکڑ پر گلی میں قرآن مجید کے چند اوراق بکھرے پڑے تھے اور ان پر توہین آمیز الفاظ لکھے تھے جبکہ انہی اوراق پر دو مسیحی افراد کی تصاویر اور ان کے فون نمبرز بھی موجود تھے۔ جیسے ہی یہ خبر پھیلی تو گرد ونواح کے علاقوں سے مساجد میں اعلان ہوئے اور ہجوم جمع ہونے شروع ہو گئے۔ جن دو افراد کی تصاویر تھیں، ان سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے توہین سے انکار کیا اور کہا کہ کوئی توہین کر کے اپنی تصاویر کیونکر پبلش کرے گا یا اپنے فون نمبرز کیونکر دے گا؟ بہر حال قرآن مجید کے اوراق کی توہین ایک ظلم اور اشتعال انگیز فعل تھا کہ جس پر اہل علاقہ کو توہین کرنے والوں کے خلاف قانون کے تحت کاروائی کرنی چاہیے تھی اور انہیں کڑی سزا ملنی چاہیے تھی۔
اس توہین پر مبینہ ذرائع کے مطابق پانچ سے چھ ہزار کے مشتعل ہجوم نے 19 گرجا گھر اور 86 مکانات نذر آتش کر دیے۔ اس میں کتاب مقدس کے نسخے بھی جلائے گئے۔ بہر حال یہ ایک دوسرا ظلم ہے جو بعض جذباتی اور مشتعل مسلمانوں کی طرف سے اقلیتوں پر ہوا کہ جرم کی سزا مجرم کو ملنی چاہیے نہ کہ دوسرے بے گناہوں کو۔ لہذا ان ظالموں کو بھی قانون کے تحت کڑی سزا دینی چاہیے۔ حکومت نے اس اشتعال انگیزی کے خلاف کار سرکار میں مداخلت، جلاو گھیراو اور انسداد دہشت گردی سمیت کئی ایک دفعات کے تحت کئی ایک مقدمات میں 128 افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ اور علاقے میں رینجرز کو بلوا کر دفعہ 144 نافذ کر دی ہے۔ فی الحال علاقے میں امن وامان کی صورت حال ہے۔
ان حالات میں ایک مقامی چرچ کے انچارج میجر معشوق مسیح نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایک مقامی اہل حدیث مسجد نے انہیں یہ آفر کی ہے کہ وہ صبح نو بجے ان کی مسجد میں آ کر اپنی عبادت کر سکتے ہیں۔ لیکن معشوق مسیح نے انہیں جواب میں کہا کہ پہلے چرچ جلے ہیں اور اب مسجد بھی نذر آتش نہ ہو جائے۔ آپ اپنے بڑوں سے پہلے صلاح مشورہ کر لیں۔ معشوق مسیح نے ایک طرح سے اس آفر کو ٹال دیا تھا تا کہ مسجد کو کوئی نقصان نہ پہنچے اور فساد مزید نہ بڑھ جائے۔ لیکن اسی اہل حدیث مسجد کے لوگ دوبارہ آئے اور کہا کہ ہم نے اپنے بڑوں سے مشورہ کر لیا ہے، جو بھی نتائج ہوں، ہم برداشت کریں گے۔ آپ ہماری مسجد میں آ کر اپنی عبادت کر سکتے ہیں۔ یہ بات بتلاتے ہوئے معشوق مسیح رو پڑے۔
یہ انٹرویو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا اور اس پر بحث چل پڑی کہ کیا عیسائیوں کو اپنی مسجد میں عبادت کی دعوت دینا جائز ہے یا ایک گمراہی ہے؟ جو لوگ جواز کے قائل ہیں، وہ یہ بیان کر رہے ہیں کہ سیرت کے ابتدائی مصادر مثلا ابن اسحاق، ابن ہشام اور ابن سعد نے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ نجران کا عیسائی وفد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے مدینہ آیا تھا۔ وہ مسجد نبوی میں تھے کہ انہوں نے بات چیت ختم ہونے کے بعد مسجد میں ہی مشرق کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا شروع کر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر تبصرہ کیا کہ انہیں اپنی نماز پڑھنے دو۔ اور جو اہل علم اس کے خلاف ہیں، ان کے نزدیک یہ روایت ضعیف ہے لہذا قابل استدلال نہیں۔ اور عیسائی چونکہ شرک کرتے ہیں لہذا مسجد میں شرک کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے جبکہ قرآن مجید کا واضح حکم موجود ہے کہ مساجد اللہ کا گھر ہیں، اور ان گھروں میں اللہ کے علاوہ کسی کو نہ پکارو۔
ہماری رائے اس میں بین بین ہے۔ ایک تو عمومی حالات ہیں تو عمومی حالات میں اسلام کے عمومی احکامات پر ہی عمل ہوتا ہے۔ لہذا یہ عمل درست نہیں ہے کہ عام حالات میں عیسائیوں کو مسجد میں نماز پڑھنے کی دعوت دی جائے اور مسلمان گرجا گھر میں جا کر نماز پڑھیں۔ ملٹی کلچرل سوسائیٹیز میں مسلم آئیڈینٹی اور شناخت باقی رہنی چاہیے اور یہی ہمارے دین کا تقاضا ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیں ملتا ہے کہ جب آپ مکہ میں تھے تو مشرکین کی مخالفت کرتے تھے اور جب مدینہ میں آئے تو یہود کی مخالفت شروع کر دی۔ یہ بنیادی طور مسلم آئیڈینٹی کا مسئلہ تھا۔ اس لیے دین اسلام میں دوسرے مذاہب سے مشابہت سے منع کیا گیا ہے۔ اس لیے دین ابراہیمی کی طرح کی کوئی ایسی عبادت گاہ بنانا کہ جس میں مسلمان، عیسائی اور یہودی مل کر عبادت کریں تو اس پر بھی نقد کی جائے گی کہ اسلام وحدت ادیان کا قائل نہیں ہے اور نہ ہی اس کا داعی ہے۔
لیکن یہ مسئلہ خصوصی حالات کا ہے یا ایمرجینسی کی کیفیت کا ہے۔ تو کئی ایک فقہی اور اصولی قواعد ہماری اس طرف رہنمائی کرتے ہیں کہ ضرورتیں، ممنوعات کو جائز کر دیتی ہیں۔ یا اضطراری کیفیت میں حکم مختلف ہو سکتا ہے۔ یا خاص حالات میں شرعی احکام کی تطبیق یعنی اپلیکیشن میں مصالح (public interest) کا لحاظ کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے ان حالات میں، وقتی طور، محدود مدت کے لیے، کسی مقامی اہل حدیث مسجد کا متاثرہ عیسائیوں کو یہ آفر کرنا تا کہ مسلمانوں کا ایک سافٹ امیج دنیا میں قائم ہو اور متاثرہ مظلوم اقلیتوں کی دلجوئی اور تالیف قلب ہو تو اس میں حرج نہیں ہے۔ نجران کے عیسائی وفد کے مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کے واقعے سے اس پر استدلال کیا جا سکتا ہے۔
رہا یہ اعتراض کہ وہ تو مرسل روایت ہے۔ تو سیرت میں مرسل روایت قابل قبول ہوتی ہے۔ اس پر ہم ایک مستقل مقالہ میں بحث کر چکے ہیں۔ اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے مقدمہ اصول تفسیر میں اس پر مفصل بحث کی ہے کہ مغازی، تفسیر اور ملاحم یعنی جنگوں میں مرسل روایت قابل قبول ہے۔ اور پھر مرسل روایت کو نقل کرنے والے بھی ابن اسحاق ہیں کہ امام بخاری جب صحیح بخاری میں سیرت کے باب کا ذکر کرتے ہیں تو اس کا آغاز ابن اسحاق کے قول سے کرتے ہیں اور اس طرح انہیں اس باب میں خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ وہ بلاشبہ سیرت کے امام ہیں۔ پھر امام قیم رحمہ اللہ نے احکام اھل الذ٘مۃ میں اس روایت کو نہ صرف صحیح قرار دیا ہے بلکہ اس سے اس پر بھی استدلال کیا ہے کہ غیر مسلم مسجد نبوی میں بھی داخل ہو سکتے ہیں۔ ان کے صرف حرم مکی میں داخل ہونے کی ممانعت ہے۔
رہا یہ اعتراض کہ عیسائی اپنی عبادت میں شرک کرتے ہیں تو مسجد میں شرک کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے؟ یہ ایک قوی اعتراض ہے۔ اور سیرت کے واقعے میں بھی نماز پڑھنے کا ذکر ہے۔ لیکن آج ہماری ایک سابقہ عیسائی موجودہ مسلم عبد الوارث گل صاحب سے تفصیلی بحث ہوئی جو اب عیسائیوں میں دعوت کا کام بھی کر رہے ہیں اور ان کے ہاتھ پر دو ہزار سے زائد عیسائیوں نے اسلام قبول کیا ہے کہ عیسائیوں کے گرجا گھر میں عبادت ہوتی کیا ہے؟ ہمیں شرک کے فتوے دینے سے پہلے یہ ضرور جان لینا چاہیے کہ اصل واقعاتی صورت حال کیا ہے۔ یعنی عیسائیوں کی نماز کیا ہے؟ وہ گرجا میں جا کر کرتے کیا ہیں؟ کیا پڑھتے ہیں؟ ان کی نماز میں قیام ہی قیام ہے یا رکوع سجود بھی ہے؟ اس کے بعد اس پر کوئی حکم لگائیں۔ خیر عیسائیوں کی مفصل نماز میں نے ان سے منگوائی ہے، اس میں ایک دو جملے ایسے ہیں کہ جنہیں ہم شرکیہ الفاظ کہہ سکتے ہیں، بقیہ سب اللہ عزوجل کی حمد وثنا یا اس سے دعا ہے۔
مثال کے طور گرجا گھر میں عیسائی پادری دعائے ربانی پڑھتا ہے اور اس کے پیچھے بقیہ لوگ اس دعا کو دہراتے ہیں۔ دعائے ربانی کیا ہے؟ آپ انٹرنیٹ پر سرچ کر لیں۔ یہ متی اور لوقا کی انجیل میں معمولی سے فرق کے ساتھ موجود ہے۔ دعائے ربانی ان کے ہاں ایسے ہی ہے جیسا کہ ہمارے ہاں سورہ فاتحہ کا مقام ہے۔ دعائے ربانی کے الفاظ یہ ہیں: اَے ہمارے باپ تُو جو آسمان پر ہے تیرا نام پاک مانا جائے۔ تیری بادشاہی آئے۔ تیری مرضی جیسی آسمان پر پُوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو۔ ہماری روز کی روٹی آج ہمیں دے۔ اور جس طرح ہم نے اپنے قرض داروں کو معاف کیا ہے تُو بھی ہمارے قرض ہمیں معاف کر۔ اور ہمیں آزمایش میں نہ لا بلکہ بُرائی سے بچا۔
اس کے بعد احکام عشرہ کو بھی پادری پڑھتا ہے اور احکام عشرہ بھی آپ تورات میں دیکھ سکتے ہیں۔ 1-میرے حضور تُو غیر معبودوں کو نہ ماننا۔ 2-تُو کِسی بھی شَے کی صورت پر خواہ وہ اُوپر آسمان میں یا نیچے زمین پر یا نیچے پانیوں میں ہو، کوئی بت نہ بنانا۔ 3- تُو اُن کے آگے سجدہ نہ کرنا اور نہ ہی اُن کی عبادت کرنا۔ 4- تُو خداوند اپنے خدا کا نام بری نیت سے نہ لینا- 5-سبت کے دِن کو یاد سے پاک رکھنا۔ 6- اپنے باپ اور ماں کی عزت کرنا تا کہ تیری عمر اُس ملک میں جو خداوند تیرا خدا تجھے دیتا ہے، دراز ہو۔ 7- تُو خون نہ کرنا۔ 8- تُو زِنا نہ کرنا۔ 9- تُو چوری نہ کرنا۔ 10- تُو اپنے پڑوسی کے خلاف جھوٹی گواہی نہ دینا۔ تُو اپنے پڑوسی کے گھر کا لالچ نہ کرنا۔ تُو اپنے پڑوسی کی بیوی کا لالچ نہ کرنا اور نہ اُس کے غلام یا اُس کی کنیز کا، نہ اُس کے بیل یا گدھے کا اور نہ اپنے پڑوسی کی کسی اور چیز کا۔
اس کے علاوہ بھی کتاب مقدس سے نبیوں کی بہت سی دعائیں ہیں جو وہ مانگتے یا پڑھتے ہیں۔ ان دعاوں میں اللہ عزوجل کی حمد وثناء ہے، اپنے گناہوں کی معافی ہے اور اس کے سامنے اپنی حاجتیں پیش کرنا ہے۔ بس ایک جملہ جو کہ کئی بار آتا ہے، وہ شرکیہ جملہ ہے۔ اور وہ یہ کہ عیسی علیہ السلام کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں جیسا کہ ایک جگہ جملہ کچھ یوں ہے کہ باپ، بیٹے اور روح القدس کے حضور ہم اقرار کرتے ہیں کہ ہم سے گناہ ہوئے، اس لیے خدا سے التجا ہے کہ ہمیں معاف فرمائے۔ ایسے میں ان متاثرہ عیسائیوں سے یہ استدعا کی جا سکتی ہے کہ وہ مسجد میں مختصر نماز پڑھ لیں جیسا کہ پہلے ہی ان کے بعض چرچز میں مختصر دعا بھی ہوتی ہے۔ اور یہ چرچ ٹو چرچ ویری کرتا ہے۔ بلکہ پروٹسٹینٹس کے ہاں وہ شرکیہ الفاظ نہیں ہیں جو کیتھولک کے مسلک میں ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگر مقامی متاثرہ بستی میں موجود مسجد والے متاثرہ عیسائیوں کی دلجوئی اور مسلمانوں کی سافٹ امیج کی خاطر عارضی طور انہیں مسجد میں عبادت کی اجازت دے دیں کہ جس میں وہ محض اپنی دعائیں کر لیں جیسا کہ دعائے ربانی اور احکام عشرہ وغیرہ تو یہ اچھا اور مستحسن اقدام ہے۔ اور اگر اس میں وہ اندیشہ ہو کہ کہیں مصلحت الٹ نہ پڑ جائے اور مقامی مشتعل افراد مسجد پر نہ حملہ کر دیں تو پھر مصلحت کا اصول کہاں گیا کہ مصلحت کا حصول تو یقینی نہ رہا بلکہ مصلحت، مفسدہ میں بدل گئی۔ اور مصلحت مرسلہ میں اس کا کلی، عمومی اور یقینی ہونا ضروری ہے جیسا کہ امام غزالی نے بحث کی ہے۔
پس اگر مصلحت کا حصول یقینی نہ ہو تو پھر مسجد کی بجائے مسجد کے قریب ساتھ والے پلاٹ میں ٹینٹ وغیرہ کا انتظام کر کے دے دینا چاہیے۔ اہل مسجد کی طرف سے دلجوئی کی یہ صورت بھی اچھا اثر ڈالے گی اور دعوت اسلام کے پھیلنے میں معاون ثابت ہو گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دعوت کے نقطہ نظر سے ہی نجران کے وفد کو نماز کی اجازت دی تھی۔ اور نجران کا وفد آیا تھا تو یہ تو قرآن مجید کی آیات کے ظاہر سے ثابت ہے۔ اور ان کا مسجد نبوی میں آنا اور نماز پڑھنا بھی تبعا ثابت ہی سمجھا جائے گا، واللہ اعلم بالصواب.

حافظ محمد زیبر