سوال (4330)

ہمارے گھر میں ایک عیسائی عورت کام کرتی ہے، میں نے کچھ راشن پیکٹ بنائے تھے، صدقہ کیلیے تو کیا میں اس کام والی کو اس صدقہ کا راشن دے دوں، کیونکہ میری والدہ اسرار کرتی ہیں بار بار کے بیٹا وہ غریب اور ہماری ملازمہ بھی ہیں۔

جواب

ایسے لوگ بے ضرر ہوتے ہیں، اگر نفلی صدقہ ہے تو دینے میں کوئی حرج نہیں دیا جا سکتا ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:

“وَلَا يَأْكُلْ طَعَامَكَ إِلَّا تَقِيٌّ ” [سنن ابي داود : 4832]

«آپ کا کھانا متقی یعنی صاحب تقوی ہی کھائے»
بات بے ضرر کی نہیں ہے، بلکہ ہمارے معاشرے میں باشرع یعنی شریعت کے پابند سینکڑوں لوگ ایسے موجود ہیں، جو حقدار ہیں، ان کی موجودگی میں آپ ایک غیر مسلم کو دیں، یقیناً اس عورت کے اندر شرکیہ عقائد نسل در نسل آئے ہیں، لیکن پھر بھی شرکیہ تو ہیں، اس لیے اس پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ

میرے خیال سے یقینا سوال کرنے والے ایسے نہیں ہونگے، انہوں نے ایک سے زیادہ راشن کے تھیلے بنائے ہونگے، کئی لوگوں کو دیا ہوگا، اور دیتے بھی ہونگے، بہتی گنگا میں اگر اس عورت کو بھی فائدہ اٹھانے کا موقع دیا جائے تو ان شاء اللہ کوئی حرج کی بات نہیں ہے، باقی

“وَلَا يَأْكُلْ طَعَامَكَ إِلَّا تَقِيٌّ “

یہ ترغیب ہے، کوئی عزیمت یا فرضیت نہیں ہے، بس یہ ہم کہتے ہیں، نفلی صدقات کے اندر گنجائش ہوتی ہے، اس لیے نفلی شرط لگائی ہے، یہ بات گھر کے افراد بھی سمجھتے ہیں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ