سوال (3101)
ایک بھائی فیکٹری میں ملازم ہیں، ان کی ماہانہ تنخواہ سے کٹوتی ہوتی ہے اور جب وہ اس ملازمت کو چھوڑیں گئے یا ان کی مدت ملازمت پوری ہو جائے گئی تو انہیں ان کی کٹوتی شدہ رقم سے ڈبل دی جائے گئی، کیا یہ سود کے زمرے میں آتا ہے؟
جواب
یاد رکھیں کہ یہ کٹوتی اس کی اپنی ہے، یہ اس کے لیے سو فیصد حلال ہے، اگر فیکٹری جو ڈبل کر رہی ہے، وہ فیکٹری کی طرف سے بونس ہے، سود نہیں ہے، اس کی خدمات کا صلہ دے رہی ہے، تب بھی جائز ہے، لیکن بعض فیکٹریاں اور کمپنیاں کٹوتی کے ساتھ سود دیتی ہیں، اس میں لکھا ہوتا ہے کہ سود کا پیسہ ہے تو پھر لینا جائز نہیں ہوگا، اپنی اصل رقم لینی چاہیے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
شیخ محترم اس میں کچھ اور اشکالات ہیں جن پہ مجھے شیوخ کی رائے درکار ہیں، سرکاری ملازمت میں جو معاملات سے واسطہ پڑتا ہے، ایک میں اوپر سوال کی طرح جی فنڈ اکاونٹ ہوتا ہے، جس میں سود ہوتا ہے، دوسرے میں زندگی کا بیمہ یا انشورنس ہوتی ہے اور یہ دونوں کام زبردستی کیے جاتے ہیں، یعنی ان میں ملازم کے پاس چانس نہیں ہوتا ہے۔
(1): جی پی فنڈ میں یہ ہوتا ہے کہ اوپر سوال کی طرح آپ کی تنخواہ سے کچھ رقم لازمی کاٹی جاتی ہے، جس کو پھر بینک وغیرہ میں رکھ کر سود کمایا جاتا ہے، اور آپ کو ریٹائرمنٹ پہ سود اور اصل رقم واپس کی جاتی ہے، اگر کوئی کہتا ہے۔ کہ میں نے سود نہیں دینا تو اس کی رقم تو بینک میں ہی رکھی جاتی ہے اور سود کمایا جاتا ہے، لیکن وہ سود کی رقم اس ملازم کو نہیں دی جاتی۔ بلکہ جو اس کی اصل رقم کاٹی گئی تھی ، وہی دی جائے گی، اب بیس تیس سال بعد جو اس کو رقم ملے گی، اس کی قیمت بہت کم ہوگی، وہ اس کو کہیں بھی کاروبار میں لگاتا تو منافع کما سکتا تھا، یا کم از کم اس سے سونا خرید کر رکھ لیتا تو اس کی قیمت تو کم نہ ہوتی ہے، اس میں کیا یہ ہو سکتا ہے کہ وہ سود کو بند نہ کروائے اور اپنی اصل کاٹی جانے والی رقم کو سونے کے حساب سے حکومت کو وکیل بنا لے کہ اس نے سونا میری جگہ خرید کر رکھ لیا جو نفع نقصان ہوگا، وہ اس سونے کی قیمت کے لحاظ سے ہوگا، پھر بیس تیس سال بعد جب اسکو سود سمیت رقم ملے تو وہ سمجھے کہ آج میں نے اپنے وکیل حکومت سے اپنا سونا بکوا کر واپس لیا تو جو اس وقت سونے کی قیمت ہو وہ خود رکھ لے باقی کسی کو دے دے کیا اسکی کوئی گنجائش نکل سکتی ہے۔
(2): دوسری طرف گروپ لائف انشورنس کی سکیم ہوتی ہے، جس میں تمام ملازمین کی تنخواہ سے لازمی ہر ماہ کچھ رقم کاٹ کر انشورنس کمپنی کو دی جاتی ہے۔ اور پھر جب وہ ملازم مرتا ہے تو انشورنس کمپنی دس بیس لاکھ اس ملازم کی فیملی کو دیتی ہے۔ تو کیا وہ فیملی یہ انشورنس کی رقم لے سکتی ہے، کیونکہ اس کو مجبور کیا گیا تھا کہ وہ لازمی انشورنس کروائے۔
ان دونوں صورتوں میں وضاحت چاہیے تھی۔
فضیلۃ الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ
یاد رکھیں کہ نہ پہلی صورت میں گنجائش نکلتی ہے اور نہ ہی دوسری صورت میں گنجائش نکلتی ہے، پیسہ آہستہ آہستہ جمع ہوتا ہے، ایسا نہیں ہے کہ آپ نے دس بیس لاکھ دیے ہیں، انہوں نے سونا خرید کر کے رکھا ہے، یہ بلا وجہ کی تاویل ہے، ہر مہینے تھوڑا سا کاٹتے ہیں، یہی پیسے جمع ہوتے ہیں، سونا خریدنے کی بات ہی نہیں ہے، اور بینک اس قدر شریف بھی نہیں ہے کہ وہ آپ کے لیے بزنس کرے، دوسرا یہ ہے کہ کمپنی نے انشورنس پر مجبور کردیا ہے یا کمپنی نے کروا دی ہے، لیکن کمپنی آپ کے ریٹائرمنٹ یا موت کے بعد وہی انشورنس کے پیسے لے کر آپ کو دیتی ہے، جو کہ سود کے پیسے ہیں، اس کی کون گنجائش دے سکتا ہے، انشورنس آپ کریں یا کمپنی کرے، ہر حال میں سود ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ