کیا صرف قائل کی معذرت کافی ہے؟ ناشر کی کوئی ذمہ داری نہیں؟!

فیک آئی ڈیز کے فتنے پر ایک عرصے سے میں لکھتا آ رہا ہوں، وجہ اس کی یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر ہونے والے تنازعات اور اختلافات میں ان کا نمایاں کردار ہے۔
حالیہ معاملے میں شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری نے ایک وائس کی، پھر بعد میں معذرت بھی کر لی… اور الحمد للہ محبت و الفت کی راہیں ہموار ہوئیں!
لیکن کیا صرف شیخ کی معذرت کافی ہے؟ کیونکہ شیخ نے تو یہ بات محدود افراد کے گروپ میں کی تھی، اسے ہزارں لوگوں کے درمیان پھیلانے والی نیکی کس نے کی ہے؟ ان کا محاسبہ کون کرے گا؟
اب تک کی تحقیق کے مطابق اس کے پیچھے بھی وہی فیک/ غیر معروف آئی ڈیز والا فتنہ نمودار ہوا ہے اور جتنے نام سامنے آئے، سب کے تانے بانے عادی مجرموں کے ایک گروہ سے جا کر مل رہے ہیں، جس کا کام افراد اور اداروں کے خلاف لوگوں کو اکسانا ہے!
آخر یہ لوگ اس کو اتنا ہی نیکی کا کام سمجھتے ہیں تو یہ سب کچھ اپنے حقیقی ناموں اور اپنی معروف آئی ڈیز سے یہ کام کیوں نہیں کرتے؟!
میں ایک طالبعلم ہونے کی حیثیت سے دس پندرہ سال سے سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز استعمال کر رہا ہوں، ایک وقت تھا بہت تندو تیز تحریریں بھی لکھیں اور سب اپنے نام سے لکھیں، کبھی اس بات پر شرح صدر نہیں ہوا کہ مخالفین کو رگیدنے یا کوئی نیا فتنہ بپا کرنے کے لیے الٹی سیدھی آئی ڈیز بنا لوں، یا کسی انتشار کے لیے معصوم اور غیر معروف لوگوں کو کہوں کے آپ فلاں فلاں پوسٹس سوشل میڈیا پر نشر کر دیں۔
اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان میں اللہ کے ہاں جوابدہی کا احساس مر بھي جائے، انسانوں کا سامنا کرنے کی فکر رہتی ہے….!!
خود کی اصلاح کا دروازہ کھلا رہتا ہے!!
لیکن فیک اور نامعلوم آئی ڈیز استعمال کرنے والے لوگ ڈیجیٹل بہروپیے ہیں، جب جی چاہا حقیقی نام سے عالم فاضل بن گئے اور جب جی چاہا کسی آئی ڈی کی آڑ میں فساد اور فتنہ پروری کا کاروبار شروع کر دیا۔
حیرانی اس بات پر ہوتی ہے کہ اتنے اہم معاملات میں ہم ایک دوسرے کے گریبان تک پہنچ جاتے ہیں، لیکن یہ غور نہیں کرتے کہ یہ باتیں نشر کہاں سے ہو رہی ہیں؟ اور ہم تک ان باتوں کو پہنچا کون رہا ہے؟!
یہاں کوئی کہہ سکتا ہے کہ شیخ امن پوری نے بات کی ہے تو کسی نے نشر کی ہے… یہ بات درست ہے… لیکن جب ہم بات کرنے والے کی مذمت کر رہے ہیں، تو اس کے ناقل پر غور نہیں کرتے؟ شیخ امن پوری کے فتاوی، تصنیفات و تحقیقات سب وہ خود گروپوں میں شیئر کرتے ہیں یا ان کے معروف تلامذہ اور محبین نقل کرتے ہیں… لیکن اس قسم کی چیزیں غیر معروف اطراف سے کیوں شیئر ہوتی ہیں؟!
امن پوری صاحب نے بات علماء کے ایک مجموعہ میں کی ہے، لیکن فیس بک پر وہ نشر خواتین کے ناموں سے ہو رہی ہے؟
امن پوری صاحب نے معذرت کرلی.. لیکن ناقلین اور اس انتشار کو ہوا دینے والوں کی معذرت کدھر ہے؟!
آخر وہ کیا عزائم و مقاصد ہیں، جن کے لیے اس قسم کے ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں؟!
علماء کے گروپ سے اٹھا کر اسے باہر خواتین تک پہنچانے والا یا خواتین سے شیئر کرنے والا، اپنا نام کس لیے نہیں دینا چاہتا؟
1۔ کیونکہ یہ کام ایک فساد ہے، اور لوگ اسے فسادی نہ سمجھیں!
2۔ یہ حرکتیں عالمانہ نہیں، جاہلانہ ہیں، اور اس سے ان کی عالمانہ شان پر حرف آتا ہے۔
3۔ لوگوں میں ان کا مفسدانہ کردار مشہور ہے، اگر ان کے نام سے ایسی چیزیں شیئر ہوئیں، تو ان کے فسادی ہونے کی تائید و تاکید ہو گی… وغیرہ۔
اگر وجوہات یہی ہیں، تو بھائی جان آپ کو ایسے کام نہیں کرنے چاہییں اور اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے، ان حرکتوں سے باز آ جانا چاہیے۔
اور اگر آپ باز نہیں آتے تو اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ آپ نے خود پر مفسد اور جاہل کا ٹھپہ خود ہی لگایا لیا ہوا ہے، لیکن فیک آئی ڈیز کا سہارا لیکر خود کو پردے میں رکھنا چاہتے ہیں!
یاد رکھیں! سوشل میڈیا کو اچانک امام مہدی یا عیسی علیہ السلام نے آکر مشرف بہ اسلام نہیں کرنا، بلکہ اس کی بہتری کے لیے اصول و ضوابط اور اس میں اختلاف و انتشار کا ذریعہ بننے والے اسباب کی سرکوبی کے لیے ہم نے خود ہی مل کر تگ و دو کرنی ہے!
سوشل میڈیا کا اس وقت ایک بڑا فتنہ یہی جعلساز اور پردے کے بیچھے چھپ کر شرارت کرنے والے لوگ ہیں… لہذا ہم نے اس کے سد باب کی کوشش کرنی ہے۔
امید ہے کہ جلد یا بہ دیر یہ سلسلہ اپنے انجام کو پہنچے گا۔ کیونکہ اس بار کئی ایک دوست اس معاملے کی کھوج میں لگ چکے ہوئے ہیں، اور امید ہے وہ جلد ایسے کرداروں کو بے نقاب کرنے میں کامیاب ہوں گے، اور ساتھ بتائیں گے کہ ماضی میں بھی کن کن مواقع پر کیسے کیسے فتنہ و فساد کی راہیں ہموار کی گئیں!

#خیال_خاطر