سوال (5061)
فاختہ نے جو الفاظ لکھے کہ:
“حسن رضی اللہ عنہ سے کیے گئے وعدہ کی خلاف ورزی کی گئی” اس کا کیا جواب ہوگا؟
جواب
فاختہ نے جو الفاظ لکھے کہ:
“حسن رضی اللہ عنہ سے کیے گئے وعدہ کی خلاف ورزی کی گئی”
اس بات کی کوئی ایک معتبر سند بھی موجود نہیں، بعض رافضیوں نے صلح حسن کی شرائط کی رٹ لگا رکھی ہے یہ بھی اسی گروہ کی نمائندگی کرتے جملے ہیں، جبکہ سارے دجالی لوگ مل کر بھی ان کی سند پیش کرنے سے قاصر ہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے بارے میں اس قدر بے تکلفی اور بے لگامی، یہ قبر سیاہ کرنے کے مترادف ہے، جب یہ کالم لکھا گیا اس وقت اس کا رد تو کیا گیا لیکن ساتھ میں یہ شبہ ہوسکتا تھا کہ ممکن ہے لاشعوری طور پر لکھ دیا گیا جس پر غلطی کا اعتراف کیا جائے گا، لیکن مذکورہ وضاحتی بیان میں موصوف کی رافضیت اور ضلالت بالکل واضح ہوتی ہے۔ جو کہ منہج سلف سے، منہج اہل سنہ سے بالکل منحرف ہیں۔ اور اس کا تعصب و ضد سے دفاع بھی کررہے ہیں۔ اس پر ان کی گرفت ہونی چاہیے اور اعلانیہ ایسے رافضیوں کا بائیکاٹ کرنا چاہیے جو کہ اتحاد امت کے نام پر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پر طعن کرکے فساد برپا کرتے ہیں اور دعوی اتحاد کا کرتے ہیں۔
“وَاِذَا قِيۡلَ لَهُمۡ لَا تُفۡسِدُوۡا فِىۡ الۡاَرۡضِۙ قَالُوۡاۤ اِنَّمَا نَحۡنُ مُصۡلِحُوۡنَ” [البقرة: 11]
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں.
وضاحتی بیان کے بعد ہر لحاظ سے ایسا نجس لوگوں کا رد کرنا لازم ہو چکا ہے، یہ نا ہو کہ جماعتوں اور خدمات کی آڑ میں اس پر خاموشی عذاب الہی کا باعث بن جائے، صحابہ کے گستاخ نے قرآن کی تفاسیر، صحاح ستہ کی شرح، بھی امت کو دی ہو پھر بھی وہ شخص ردی کی حیثیت بھی نہیں رکھتا، اور ہمارے لوگ ایسے لوگوں کی سابقہ دور میں۔ سٹیجوں، کالموں کے ذریعہ لکھی گئی چند دینی باتوں سے متاثر ہوکر ان کا دفاع کررہے ہیں جو کہ نفاق کی علامت ہے، اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا۔ دین ایسے جہلاء کی خدمات کا محتاج نہیں، جو اس کا دفاع کرے، یا اس کے ساتھ اپنی نسبت قائم رکھے اس کا بائیکاٹ کرنا بھی لازم ہے خواہ وہ کوئی فرد ہو یا جماعت۔ھذا ما عندی واللہ اعلم باالصواب
فضیلۃ الباحث ابو زرعہ احمد بن احتشام حفظہ اللہ
جس کی جو بھی حیثیت یا خدمات ہوں، اس کی غلط فکر کا رد کیا جائے گا، لیکن یہ بات درست نہیں کہ جو کسی سنگین میں غلطی مبتلا ہو اس کی حیثیت ردی کے برابر بھی نہیں ہے۔ کیونکہ اس قسم کے جملے عصر حاضر کے کسی نیم خواندہ کے لیے تو چل جائیں گے، لیکن اصولی طور پر ائمہ و علماء کے ساتھ تعامل میں یہ رویہ درست نہیں ہوگا۔
فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ
دیکھیں پیارے بھائی امیر حمزہ صاحب کی یہ بات تو بالکل بے سند ہے کہ جو انہوں نے امیر معاویہ ؓ پہ صلح کی شرط توڑنے کی بات کی ہے اس پہ سید سبطین نقوی صاحب کی تقریر میں نے سنی ہے وہ درست کہ رہے ہیں
لیکن اس سے یہ واضح مطلب نکال لینا کہ یہ پیسوں کے لئے یا دنیاوی مفاد میں ایسا کر رہے ہیں اسکا فیصلہ ہم نہیں کر سکتے ہیں یہ بات تو کم ہے انہوں نے ایک دفعہ پہلے ایک کالم لکھا تھا حسین علیہ السلام سب کا جو اصل میں شاید شیعہ کے ساتھ کوئی مجلس کا بیان تھا اس میں بھی مداہنت والی باتیں بظاہر نظر آ رہی تھی اور لگتا تھا کہ یہ دنیاوی مفاد میں ایسا کچھ کر رہے ہیں ایسی باتیں ان کی نواز شریف کی تعریف میں اور پھر شاید انکے مخٓلف کی تعریف میں بھی کچھ کالم میں پڑھی تھی لیکن ہم بغیر کسی واضح قرینہ کے ان کے بارے برا گمان نہیں کر سکتے ہم اس کام کو غلط ہی کہیں گے مگر انکے بارے خٓموشی اختیار کریں گے۔
اسکی بڑی وجہ یہ ہےکہ جن امیر معاویہ ؓ کو ہم بچانا چاہتے ہیں انکے بارے بھی پھر ایسی باتیں علما سے آتی ہیں جیسا کہ ملا علی قاری وغیرہ کا بیان کہ امیر معاویہ کا قصاص عثمان کا مطالبہ سے یہی لگتا تھا کہ وہ اصل میں حکومت ہی چاہتے ہیں لیکن انہوں نے بھی کوئی واضح قرینہ نہیں دیا تو ہم کہتے ہیں کہ یہ احتمال موجود تھا کہ انہوں نے اپنی حکومت کے لئے یہ بیانہ بنایا ہو لیکن دلیل نہ ہونے کی وجہ سے ہم اجتنبوا کثیرا من الظن کے تحت اچھا گمان ہی کریں گے۔
پس ہم سید سبطین کی طرح اسکا کھل کر رد کریں گے لیکن کوشش کریں گے کہ امیر حمزہ پہ بغیر دلیل ٹھوس الزام نہ لگائیں۔
فضیلۃ الباحث ارشد حفظہ اللہ
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے بارے میں حسن ظن والی بات یکسر مختلف ہے۔ اور کسی عام امتی خواہ وہ عالم ہو اس کا معاملہ مختلف ہے۔
ہم نے پیسے لیے نہیں لیے یہ ذکر نہیں کیا۔ بدگمانی اور چیز ہے اور کسی کی زبان سے اعلانیہ تصعب، گمراہی کا جاری ہونا اور اس پر با ضد رہنا مختلف ہے۔ جو شخص صاحب علم ہونے کےباوجود صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر الزامات لگائے، ان کے بارے میں ہم کس بنیاد پر حسن ظن رکھیں؟
اگر کسی عالم سے فروعی اجتہادی معاملہ میں غلطی ہو، تحقیق میں غلطی ہو تو اس کی علمی خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے خاموشی اختیار کرنا الگ ہے۔ لیکن جب معاملہ مقدس ہستیوں کا آجائے، تب یہ کہنا کہ فلاں بڑا عالم ہے لہذا وہ صحابہ کے بارے میں جو بھی کہے ہم حسن ظن رکھتے رہ جائیں ایسا نہیں ہوسکتا.
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا معاملہ کوئی کھلواڑ نہیں ہے کہ جھوٹے تاریخی تجزیوں کی آڑ میں ہر بندہ اپنا موقف بناتا ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم باالصواب
فضیلۃ الباحث ابو زرعہ احمد بن احتشام حفظہ اللہ