فلاں بزنس کے بائی۔ کاٹ سے “ملازم بے روزگار ہو جائیں گے؟ عقل نئیں تے موجاں ای موجاں ۔۔۔

کنزیومرز سے متعلق ایک فیس بک گروپ، جس کے چار پانچ لاکھ ممبرز ہیں، اس کی پوسٹس میری فیڈ میں کافی آتی ہیں۔ روزانہ ہی بہت سے لوگوں کی پوسٹس ہوتی ہیں جن میں وہ کسی غیر ملکی پراڈکٹ کے متبادل مقامی پراڈکٹ کا پوچھتے ہیں، تو اس پر ڈھیروں بھانڈ ان پر ہنستے اور تمسخر اڑاتے ہیں۔ اگر کوئی یہ شکایت کرتا ہے کہ گاہکوں کے جذبات اور ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے دوکانداروں اور ریستورانوں کو گاہکوں کو کم از کم متفرق مصنوعات میں سے انتخاب کا حق تو دینا چاہیئے، نہ کہ صرف کسی مخصوص برانڈز کی ہی مصنوعات خریدنے پر گاہکوں کو مجبور کرنا۔ تو اس پر ہمارے دیسی لبرل بھانڈ میراثیوں کی بریگیڈ ان لوگوں کو یاد دلاتی ہے کہ ان کا کوئی حق نہیں کہ وہ تاجروں اور ریستورانوں سے اپنی مرضی کی مصنوعات کی خواہش تک بھی رکھیں۔
کیوں بھئی؟ کس لیے؟
اس سلسلے میں دو مثالیں:
پہلی مثال:
آج ہی ایک شخص نے صرف اتنا ہی کہا کہ وہ “چائے خانہ” نامی ریستوران میں گئے تو وہاں صرف اور صرف
Aquafina (Pepsi’s brand) کے پانی کی بوتل رکھ دی گئی، کوئی اور آپشن دستیاب نہ ہونے پر یہ شخص وہاں کھانا کھائے بغیر نکل آیا اور کسی اور جگہ کھانا کھایا۔ پوسٹ میں اس نے درخواست کی کہ گاہکوں کے جذبات کے پیشِ نظر ان کو کم از کم انتخاب کا حق تو دیں۔
تو جناب، اس کے جواب میں “انگریزی میڈیم۔۔۔ انگریزی اور رومن اردو بریگیڈ” کو جو آگ لگی اور انہوں نے جو اس شخص کی مذمت کرنا شروع کی۔۔۔۔ ۔۔
ہمارے میراثیوں کو کب سمجھ آئے گی کہ ریستوران اپنے گاہکوں پر اپنی مرضیاں تھوپنے کے لیے نہیں ہوتے بلکہ اپنے گاہکوں کی خوراک کے متعلق خواہشات پوری کر کے بزنس کرتے ہیں۔ اگر گاہک ہی کوئی چیز پسند نہیں کرتا، اور اپنا حق استعمال کرتے ہوئے ریستوران کو بتاتا ہے کہ فلاں چیز اسے پسند نہیں، تو ریستوران والے تو اس پر اس کو شاید کچھ نہ کہیں، لیکن سوشل میڈیا پر موجود میراثی اور
Moral brigade ضرور ان گاہکوں کو بتاتی پھرتی ہے کہ ریستوران کی فلاں پیش کردہ شے نہ استعمال کر کے انہوں نے کتنا بڑا جرم کیا ہے ۔ اور یہ کہ ریستوران کا تو حق ہے کہ وہ جو مرضی گاہکوں کے منہ میں ٹھونسے اور ان کو کوئی انتخاب کا حق نہ دے، لیکن گاہکوں کا کوئی حق نہیں کہ وہ کسی چیز کو خریدنے سے انکار کریں۔
اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ یہ سیکولرسٹس، دیسی لبرلز (جن کی بڑی تعداد دینِ اسلام سے نکلی ہوئی ہوتی ہے یا دل کے کوڑھ کی شکار ہوتی ہے)، یہ عدم برداشت اور دوسروں پر اپنی مرضیاں تھوپنے اور اپنی اقدار زبردستی نافذ کرنے کے علمبردار ہوتے ہیں۔ لیکن دعوے یوں کرتے ہیں کہ جیسے یہ تحمل اور برداشت کے پیکر ہوں اور مذہبی لوگوں کو انتہا پسندی اور عدم برداشت کے حامل قرار دیتے ہیں۔
ہم یہاں یہ واضح کر دیں کہ دیسی لبرلز کے قبلہ و کعبہ اور مائی باپ ملک امریکہ میں گاہکوں کو قانونی حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی ریستوران میں نلکے کا پانی طلب کرے اور اس کو ریستوران نلکے کا پانی پیش کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ ہاں یہ گاہک کی مرضی کہ وہ بوتل کا پانی خریدے لے۔
جبکہ “وطنِ عزیز” نامی ملک میں ریستوران چلے جائیں تو سب سے پہلے اس کا سٹاف کسی امریکی کمپنی کی پانی کی انتہائی مہنگی بوتل لا کر گاہک کو ٹھونس دیتا ہے ۔ اس بوتل کی قیمت بھی مارکیٹ سے دگنا تگنا ہوتی ہے، نلکے کے پانی کی نسبت ہزاروں گنا مہنگا پانی ہوتا ہے، اس پانی میں پلاسٹک کے ذرات ہوتے ہیں، یہ بوتلیں ماحولیاتی آلودگی کی بہت بڑی وجہ بنتی ہیں۔ ان بوتلوں کے پلاسٹک کو ناپید ہونے میں ہزاروں سال چاہیئے ہوتے ہیں۔
ہمارے دیسی لبرلز ان ہی بوتلوں سے مہنگا پانی پی کر، اور اپنا زرمبادلہ اپنے قبلہ و کعبہ کو بھیج کر، اور پلاسٹک کا گند ڈال کر بڑے فخر سے اپنے آپ کو “اونچا اونچا ” محسوس کرتے ہیں۔ اور ایسا نہ کرنے والوں کو حقیر اور انتہا پسند قرار دیتے ہیں۔

دوسری مثال:
پوسٹس اور وڈیوز کے زریعہ بہت سے دیسی لبرلز روزانہ ہی یہ افواہیں کیوں پھیلاتے پھرتے ہیں کہ فلاں برانڈ یا مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے سے اس کے ملازمین بے روزگار ہو جائیں گے۔
ہمارا ان سب سے سوال ہے کہ کسی ریستوران کے مخصوص لائسنس یافتہ نام کی بجائے مقامی نام رکھ لیا جائے گا تو کیا لوگ کھانا پینا چھوڑ کے بھوک ہڑتال پر چلے جائیں گے؟
کھانے پینے والے تو اتنے ہی ہیں۔
مصنوعات کے صارف بھی اتنے رہیں گے۔تو جو ملازمین بیرون ملک کی برانڈز والی مصنوعات بیچنے میں مصروف ہیں وہی مقامی برانڈز اور مصنوعات کی کھپت بڑھ جانے کی وجہ سے ان کو بیچنے اور بنانے میں لگ جائیں گے۔ اس میں کون سی راکٹ سائنس آپ لوگوں کو سمجھ نہیں آتی؟
جن ممالک میں بیرونی دنیا کی بجائے مقامی سطح پر زیادہ مصنوعات تیار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کیا وہ گھاٹے میں جا رہے ہیں؟ یا پھر ایسا ہے کہ ان کا درآمدی بل کم ہونے اور برآمدی بل بتدریج زیادہ ہو جانے کی وجہ سے وہ فائدے میں رہتے ہیں؟اصل میں سوشل میڈیا نے جو ڈیموکریٹائزیشن آف نالج کو پروان چڑھایا ہے تو ہر کوئی سوچے سمجھے بغیر پوسٹ داغ دیتا ہے، چاہے گھر میں اس کو کوئی سنجیدہ نہ لیتا ہو۔ ہمیں چاہیئے کہ بیرونی ممالک کی غلامی کے بھاشن دینے والے افراد کی سختی سے حوصلہ شکنی کریں۔
دنیا میں جتنی بھی اپنی تہذیب پر فخر کرنے والی قومیں ہیں ان کے افراد نہ تو پرائی زبان میں بات کرنے اور لکھنے کو فخر کی علامت سمجھتے اور نہ ہی مصنوعات بیچتے ہوئے بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ “یہ امپورٹڈ مال ہے”۔ صرف شکست خوردہ، نااہل، نکمے اور غلام ذہنیت ہجوموں کا ہی یہ شیوہ ہوتا ہے کہ جب بھی ان کے ہاں کوئی خود داری کا درس دے تو یہ اس کو رسک، معاشی خطرات، بے روزگاری اور غربت کے طعنے دے دے کر اس کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ شاید وہ خود داری کی بات کر کے کوئی جرم کر بیٹھا ہے۔
یہ جو ہر پوسٹ پر اسرائیل کے حق میں مہم چلاتے پھرتے ہیں، ان “عقل مندوں” کو خبر ہو کہ پوری دنیا کے ممالک میں خود سے بزنس کر کے Entrepreneur بن جانے والے افراد کی سب سے زیادہ شرح اسرائیل میں ہے۔ وہی، اسرائیل جس سے وابستہ مصنوعات کے بائیکاٹ پر شدید تکلیف کے شکار ہو کر آپ چیخ و پکار کر رہے ہو۔ اور ہمارے لوگوں کو طعنے دے رہے ہو اور بھاشن دے رہے ہو کہ کبھی خود داری اور
Entrepreneurship کا راستہ نہ اپنانا، بلکہ بیرون ملک کی مصنوعات کے طفیلیے بنے رہو۔۔۔ (یعنی parasite بنے رہو)
کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟
تم لوگوں سے زیادہ تو ہماری مرغیاں سمجھدار ہیں، جن کو یہ تو پتا ہوتا ہے کہ دانہ کہاں کھانا ہے اور انڈہ کہاں اپنے دڑبے میں جا کر دینا ہے۔ ادھر تم لوگ ملک سے دانے چُگ کر بیرون ملک انڈے (سرمایہ) بھجوا دینے کے بھاشن دیتے پھرتے ہو۔
کوئی شرم؟ کوئی حیا؟

 Usman EM