عائشہ مسیح سے عائشہ ناز
فقط ایک حدیث اور ایک مخلص دوست
میرے شوہر نے مجھ سے میرا آبائی گھر اپنے نام پر منتقل کروانے کے بعد مجھ سے اس وقت علیحدگی اختیار کر لی تھی جب میں چار ماہ سے امید کی تھی مجھے گھر سے نکالتے وقت میرے ہی جہیز میں آئے کپڑوں میں سے مجھے سر ڈھانپنے کے لئیے فقط ایک دوپٹہ تک نہیں دیا گیا تھا میرا آخری ٹھکانہ میری دوست ہیر کا گھر تھا جہاں مجھے پناہ مل گئی تھی اور آج جب میں نے اپنے سابقہ شوہر کو ایک ایسے گندے تالاب سے پانی پیتے دیکھا جس کے دوسرے کنارے سے  کتا پانی پی رہا تھا تو میں نے گھر جا کر ہیر کے ہاتھوں کلمہ پڑھ کر مسلمان ہونے کی خواہش ظاہر کر دی تھی یوں اللہ پاک نے ہدایت دی اور ہم دونوں ماں بیٹیوں نے اسلام قبول کر لیا تھا ۔۔۔۔۔
میرا نام عائشہ ناز ہے میرا تعلق رحیم یار خان پنجاب پاکستان کے ایک غیر مسلم ( عیسائی) گھرانے سے ہے میرے والد صاحب میرے بچپن میں فوت ہو گئے تھے میری ماں لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تھی اور مدد کے بہانے مجھے اپنے ساتھ لے جاتی تھی مگر حقیقت میں میری ماں مجھے اپنی نظروں کے سامنے رکھتی تھی تا کہ ماں کی غیر موجودگی میں میں کہیں راہ سے بھٹک نہ جاؤں یا کسی انسان نما درندے کے ہاتھ نہ لگ جاؤں ۔۔۔۔
میری ماں جن گھروں میں کام کرتی تھی وہ تقریباً سارے ہی مسلمانوں کے تھے ان میں سے ایک حاجی خالد صاحب کا تھا حاجی خالد صاحب کی اپنی ذاتی تین چار مارکیٹس تھیں اور وہ پراپرٹی کا کاروبار بھی کرتے تھے حاجی صاحب انتہائی مہذب اور مذہبی آدمی تھی ان کی ایک بیٹی جس کا نام ہیر تھا اور وہ حافظ قرآن اور عالمہ تھی میری اس کے ساتھ دوستی ہو گئی تھی ہیر مجھے اکثر اسلامی واقعات اور قرآن پاک کا ترجمہ وغیرہ بتاتی رہتی تھی ہیر نے مجھے کئی بار اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی مگر میں نے ہیر کی بات نہ مانی تو اس کے باوجود ہیر نے کسی قسم کے غصے یا رویئے کا کوئی اظہار نہیں کیا تھا اور میرے ساتھ بالکل پہلے کی طرح رہی تھی ہیر ، ہیر کی والدہ اور والد صاحب جن برتنوں میں خود کھانا کھاتے اگر ان کے گھر کام کرتے ہوئے کھانے کا ٹائم ہو جاتا تو ہم کو بھی ان ہی برتنوں میں کھانا کھلاتے تھے انہوں نے آج تک غیر مسلم ہونے کی وجہ سے ہم سے کبھی نفرت نہیں کی تھی ۔۔۔۔
ہیر کی شادی ہو گئی ہیر کا شوہر کینیڈین نیشنل تھا ہیر شادی کے بعد کینیڈا جانے لگی تو ہیر نے مجھ ایک بار پھر اسلام قبول کرنے کی دعوت دی میں نے انکار کر دیا تو ہیر نے ایک کاغذ پر مجھے ایک حدیث شریف لکھ کر دی تھی جس میں سات بڑے گناہوں کے بارے میں بتایا گیا تھا ہیر نے مجھے کہا تھا اس حدیث پر عمل کرنے کی کوشش کرنا اور یہ میری دوستی کا تحفہ سمجھ کر رکھ لو اور خود ہیر کینیڈا شفٹ ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔۔ ۔
ہیر کا دیا ہوا وہ کاغذ جس پر ہیر نے حدیث شریف لکھ کر مجھے دی تھی آج بھی میرے پاس محفوظ ہے میں نے ان سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی خیر وقت گزرتا رہا میری شادی عاصم مسیح سے طے کر دی گئی میری ماں نے بہت کڑی محنت کر کے میرے لئیے جہیز اکٹھا کیا تھا مگر افسوس کہ مجھے اپنے ہاتھوں سے رخصت کرنے سے پہلے ہی خود دنیا سے رخصت ہو گئیں ماں کی موت کے بعد میں نے چند اپنے مذہب سے تعلق رکھنے والے بزرگوں کی موجودگی میں عاصم مسیح سے اپنے مذہب کے مطابق رشتہ ازدواج منسلک قائم کر لیا اور ہیر کے والدین نے مجھے اپنی بیٹی بنا کر ڈھیروں دعائیں دیتے ہوئے گھر سے رخصت کیا ۔۔۔۔۔
عاصم نے شادی کے چند ماہ بعد ہی میرا آبائی گھر جو مجھے والدین سے وراثت میں ملا تھا اپنے نام پر منتقل کروایا اور آہستہ آہستہ مجھ سے رویہ بدلنے لگا یہاں تک شادی کے ٹھیک ایک سال بعد جب میں چار ماہ سے امید سے تھی عاصم مسیح نے مجھے مار پیٹ کر گھر سے نکال دیا اور مجھ سے علیحدگی اختیار کر لی مجھے گھر سے نکالتے وقت میری ماں کی کڑی محنت سے بنائے گئے جہیز کے کپڑوں میں سے ایک دوپٹہ بھی نہ لینے دیا میرا پاس اور کوئی ٹھکانہ نہیں تھا تو میں ایک بار پھر ہیر کے والدین کی دہلیز پر آ بیٹھی ہیر کے والدین نے مجھے بالکل اپنی بیٹی کی طرح سمجھا میرا خیال رکھا میرے شوہر کو سمجھانا چاہا مگر میرے شوہر نے کسی قسم کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی اس نے مجھے فارغ کر دیا ۔۔۔۔۔
جس دن مجھے شوہر نے فارغ کیا اس کے بعد ہیر ہر روز مجھ سے بات کرتی میری دلجوئی کرتی یہاں تک کہ جب مقررہ وقت پر میری بیٹی پیدا ہوئی ہیر نے کینیڈا سے ڈھیر سارے تحائف ، کپڑے اور کھلونے میری بیٹی کے لئیے بھیجے ہیر نے میرا اور میری بچی کا ہر قسم کا خرچ اٹھایا میری بچی سکول جانے قابل ہوئی تو اسے رحیم یار خان کے سب سے بہترین سکول میں داخل کروایا مگر حیران کن طور پر جب سے میرا گھر ٹوٹا تھا ہیر نے مجھے کبھی قبول اسلام کی دعوت نہیں دی مجھے اس سوال کا میرے اپنی مرضی سے اسلام قبول کرنے کے بعد ہیر نے کچھ یوں دیا تھا میں نہیں چاہتی تھی میری بہن عائشہ ناز مجھ سے مجبور ہو کر اسلام قبول کرے میں چاہتی تھی عائشہ ناز اسلام کو سمجھنے کے بعد اسلام کی محبت میں آ کر اسلام قبول کرے ۔۔۔۔۔
ہیر نے مجھے جو احادیث گناہ کبیرہ کے متعلق لکھ کر دی تھی ان سات گناہوں میں سے ایک گناہ کبیرہ یتیم کا مال کھانا بھی تھا گو کہ میں نے تو ہر ممکن ان ساتوں گناہوں سے بچتی رہی مگر میں یتیم لڑکی تھی میرے شوہر نے میرا گھر اور جہیز کا سامان سب کچھ ہتھیانے کے بعد مجھے فارغ کر دیا تھا اور میرا حق واپس مانگنے پر بھی واپس نہیں دیا بلکہ مجھے مغلظات بکنے لگا تو میں حدیث شریف کی رو سے اپنے شوہر کا انجام دیکھنے کی منتظر رہنے لگی اور سوچنے لگی کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام کائنات کے لئیے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا گیا تھا کائنات کی مخلوقات میں سے میں بھی ایک مخلوق تھی پھر تو یہ حدیث میرا حق ہتھیانے والے پر لاگو ہونی چاہیے تھی اور پھر واقع ہی حدیث شریف میں آئے اس گناہ کبیرہ کا مرتکب ہونے والے میرے شوہر کا انجام بہت برا ہوا ۔۔۔۔
ایک دن میرا سابقہ شوہر میرے ہی دئیے گئے جہیز کا سامان بیچ کر شراب خرید کر لایا تھا ساری رات مجھ سے ہتھیائے گئیے میرے گھر میں سگریٹ اور شراب پیتا رہا تھا نجانے کب نشے میں دھت ہو گیا اس کے ہاتھ سے جلتی سگریٹ گر گئی پاس پڑے فرینچر اسی وقت آگ پکڑ لی آگ کی وجہ سے میرا شوہر کا جسم اور چہرہ تک جھلس گیا چہرہ جھلسنے کی وجہ سے میرے شوہر کا چہرہ اس حد تک بھیانکر ہو گیا تھا کہ اسے دیکھ کر بھی خوف آتا تھا یہاں تک باقی لوگوں نے ایسی شکل لے کر اس کے گاؤں میں داخل ہونے پر پابندی لگا دی تھی کیونکہ اس کے بگڑے جھلسے چہرے کو دیکھ کر عورتیں اور بچے تو کیا بڑے بڑے مردوں کو بھی خوف آتا تھا میرے سابقہ شوہر کو کوئی آدمی بھی اپنے یا قریبی کسی گاؤں سے بھیک تک نہیں مانگنے دیتا تھا آج ہیر کے والدین گھر پر نہیں تھے تو میں کسی کام سے اپنے گاؤں کی طرف گئی تو میرا سابقہ شوہر ایک ایسے گندے تالاب سے پانی پی رہا تھا جس کے دوسرے کنارے پر کتا پانی پی رہا تھا میں نے پہلی نظر میں ہی اس ظالم انسان کو پہچان لیا تھا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر ڈھائے کا مظالم کا لیا گیا بدلہ بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا ۔۔۔۔
آج مجھے یقین ہو گیا تھا کہ اسلام سچا مذہب ہے اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا ان کے بتائے گئیے کام کرنے میں عزت اور بڑائی ہے اور ان کے روکے گئیے کام کرنے میں سے اللہ کا قہر اور غضب نازل ہوتا ہے میں نے گھر واپس آتے ہی ہیر سے رابطہ کیا تھا اور روتے ہوئے ہیر کو کہا تھا کہ ہیر مجھے اسلام قبول کرنا ہے ہیر نے ویڈیو کال پر ہی مجھے اور میری بیٹی کو وضو کرانے کے بعد کلمہ شہادت پڑھایا تھا اور اگلی ہی ملنے والی فلائٹ سے پاکستان آنے کا وعدہ بھی کر لیا تھا ۔۔۔
پھر ہیر اپنے وعدے کے مطابق پاکستان آ گئی تھی ہیر اور ہیر کے والدین نے مجھے اور میری بیٹی کو اسلام کے متعلق سب کچھ سکھا دیا تھا ہیر ایک مہینہ میرے پاس رکی تھی پھر ہیر مجھے عمرے پر لے جانے کا وعدہ کر کے واپس چلی گئی تھی دوسری بار ہیر اور میں صحن حرم میں ملی تھیں وہیں ہیر نے مجھ سے میری بیٹی کا ہاتھ اپنے بیٹے کے لئیے مانگا تھا میں نے روتے ہوئے ہیر کو کہا تھا کہ میں اور میری بیٹی تمہاری کسی خواہش کو رد اور کسی بات کو انکار نہیں کر سکتیں ۔۔۔۔۔
میری بیٹی نے ایم بی بی ایس کی ڈگری مکمل کی تو ساتھ ہی میں نے اس کا نکاح ہیر کے بیٹے کے ساتھ کر کے رخصت کر دیا جب میری بیٹی انگلینڈ جا کر سیٹ ہو گئی تو ہیر اپنے شوہر کی اجازت کے بعد پاکستان میرے پاس شفٹ ہو گئی ہیر آج بھی مجھے اسلام کے متعلق بہت کچھ سکھاتی رہتی ہے اور آج بھی ہیر مجھے ایسی احادیث اور آیات سناتی رہتی جس میں برے کاموں سے منع کیا گیا ہے.

یوسف سراج