“فرشتوں کا میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثاروں سے پیار “

انبیاء کرام کے بعد سب سے افضل جماعت صحابہ کرام کی ہے، جن کے فضائل و مناقب قرآن مجید میں بھرپور طریقے سے ذکر کیے گئے ہیں، جگہ جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو خوشخبریاں سنائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مقبولیت نہ صرف زمین پر بلکہ آسمانوں پر بھی قائم رکھی ہے۔ آسمانی مخلوق، یعنی فرشتے جو کہ معصوم ہیں، ان کی محبت صحابہ کرام کے لیے بے مثال ہے۔ فرشتے جب صحابہ کرام کو میدان جنگ میں دیکھتے تھے تو فوراً آسمان سے نازل ہو جاتے تھے۔ وہ صحابہ کرام سے بہت زیادہ حیا محسوس کرتے تھے اور ان پر سلام بھیجتے تھے۔ یہاں ہم چند مثالیں ذکر کرتے ہیں۔
(1) “غزوہ بدر میں فرشتوں کی آسمانی مدد”:
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کی لڑائی میں فرمایا ہے کہ

“هَذَا جِبْرِيلُ آخِذٌ بِرَأْسِ فَرَسِهِ عَلَيْهِ أَدَاةُ الْحَرْبِ” [صحيح البخاري: 3995]

«یہ ہیں جبرائیل علیہ السلام اپنے گھوڑے کا سر تھامے ہوئے اور ہتھیار لگائے ہوئے»

(2) “فرشتوں کا صحابہ کرام کی لاشوں پر سایہ ڈالنا”:
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:

“لَمَّا قُتِلَ أَبِي جَعَلْتُ أَبْكِي وَأَكْشِفُ الثَّوْبَ عَنْ وَجْهِهِ، فَجَعَلَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَوْنِي وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَنْهَ، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لاَ تَبْكِيهِ أَوْ مَا تَبْكِيهِ، مَا زَالَتِ الْمَلاَئِكَةُ تُظِلُّهُ بِأَجْنِحَتِهَا حَتَّى رُفِعَ” [صحيح البخاري: 4080]

«میرے والد عبداللہ رضی اللہ عنہ شہید کردیئے گئے تو میں رونے لگا اور باربار ان کے چہرے سے کپڑا ہٹاتا، صحابہ مجھے روکتے تھے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں روکا۔ فاطمہ بنت عمر رضی اللہ عنھا عبداللہ کی بہن بھی رونے لگیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ مت روئیں، فرشتے برابر ان کی لاش پر اپنے پروں کا سایہ کئے ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ ان کو اٹھا لیا گیا»

(3) “صحابی کی بسم اللہ آسمان سے فرشتوں کا نزول”:
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:

“لَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَوَلَّى النَّاسُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَاحِيَةٍ فِي اثْنَيْ عَشَرَ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ وَفِيهِمْ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَدْرَكَهُمُ الْمُشْرِكُونَ، ‏‏‏‏‏‏فَالْتَفَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ مَنْ لِلْقَوْمِ ؟ فَقَالَ طَلْحَةُ:‏‏‏‏ أَنَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ كَمَا أَنْتَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ:‏‏‏‏ أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَنْتَ فَقَاتَلَ حَتَّى قُتِلَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ الْتَفَتَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا الْمُشْرِكُونَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَنْ لِلْقَوْمِ ؟ فَقَالَ طَلْحَةُ:‏‏‏‏ أَنَا قَالَ:‏‏‏‏ كَمَا أَنْتَ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ:‏‏‏‏ أَنَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَنْتَ فَقَاتَلَ حَتَّى قُتِلَ ثُمَّ لَمْ يَزَلْ يَقُولُ ذَلِكَ،‏‏‏‏ وَيَخْرُجُ إِلَيْهِمْ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ، ‏‏‏‏‏‏فَيُقَاتِلُ قِتَالَ مَنْ قَبْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى يُقْتَلَ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى بَقِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَطَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَنْ لِلْقَوْمِ ؟ فَقَالَ طَلْحَةُ:‏‏‏‏ أَنَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَاتَلَ طَلْحَةُ قِتَالَ الْأَحَدَ عَشَرَ حَتَّى ضُرِبَتْ يَدُهُ فَقُطِعَتْ أَصَابِعُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ حَسِّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَوْ قُلْتَ بِسْمِ اللَّهِ لَرَفَعَتْكَ الْمَلَائِكَةُ وَالنَّاسُ يَنْظُرُونَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ رَدَّ اللَّهُ الْمُشْرِكِينَ”سنن النسائي: 3149]

جنگ احد کے دن جب لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصاری صحابہ کے ساتھ ایک طرف موجود تھے، انہیں میں ایک طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ بھی تھے، مشرکین نے انہیں تھوڑا دیکھ کر گھیر لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا: ہماری طرف سے کون لڑے گا؟ طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! میں آپ کا دفاع کروں گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم جیسے ہو ویسے ہی رہو تو ایک دوسرے انصاری صحابی نے کہا: اللہ کے رسول! میں دفاع کیلئے تیار ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لڑو ان سے تو وہ لڑے یہاں تک کہ شہید کر دیے گئے۔ پھر آپ نے مڑ کر سب پر ایک نظر ڈالی تو مشرکین موجود تھے آپ نے پھر آواز لگائی: قوم کی کون حفاظت کرے گا؟ طلحہ رضی اللہ عنہ پھر بولے: میں حفاظت کروں گا، آپ نے فرمایا: تم ٹھہرو تم جیسے ہو ویسے ہی رہو، تو دوسرے انصاری صحابی نے کہا: اللہ کے رسول! میں قوم کی حفاظت کروں گا، آپ نے فرمایا: تم لڑو ان سے، پھر وہ صحابی مشرکین سے لڑے اور شہید ہوگئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم برابر ایسے ہی پکارتے رہے اور کوئی نہ کوئی انصاری صحابی ان مشرکین کے مقابلے کے لیے میدان میں اترتا اور نکلتا رہا اور اپنے پہلوں کی طرح لڑ لڑ کر شہید ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور طلحہ بن عبیداللہ ہی باقی رہ گئے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز لگائی۔ قوم کی کون حفاظت کرے گا؟ طلحہ رضی اللہ عنہ نے پھر کہا: میں کروں گا یہ کہہ کر پہلے گیارہ شہید ساتھیوں کی طرح مشرکین سے جنگ کرنے لگ گئے۔ اور لڑتے رہے یہاں تک کہ ہاتھ پر ایک کاری ضرب لگی اور انگلیاں کٹ کر گرگئیں۔ انہوں نے کہا: حس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم حس کے بجائے بسم اللہ کہتے تو فرشتے تمہیں اٹھا لیتے اور لوگ دیکھ رہے ہوتے، پھر اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو واپس کردیا یعنی وہ مکہ لوٹ گئے۔

(4) “جبرئیل کا سیدہ خدیجہ کے لیے اللہ کا سلام لے کر آنا”:
سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:

“أَتَى جِبْرِيلُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذِهِ خَدِيجَةُ قَدْ أَتَتْ مَعَهَا إِنَاءٌ فِيهِ إِدَامٌ أَوْ طَعَامٌ أَوْ شَرَابٌ،‏‏‏‏ فَإِذَا هِيَ أَتَتْكَ فَاقْرَأْ عَلَيْهَا السَّلَامَ مِنْ رَبِّهَا وَمِنِّي،‏‏‏‏ وَبَشِّرْهَا بِبَيْتٍ فِي الْجَنَّةِ مِنْ قَصَبٍ لَا صَخَبَ فِيهِ وَلَا نَصَبَ” [صحيح البخاري: 3820]

«جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا یا رسول اللہ! خدیجہ رضی اللہ عنھا آپ کے پاس ایک برتن لیے آرہی ہیں ، جس میں سالن یا فرمایا ہے کہ کھانا یا فرمایا ہے کہ پینے کی چیز ہے ، جب وہ آپ کے پاس آئیں تو ان کے رب کی جانب سے انہیں سلام پہنچا دیجئیے گا اور میری طرف سے بھی! اور انہیں جنت میں موتیوں کے ایک محل کی بشارت دے دیجیئے گا جہاں نہ شور و ہنگامہ ہوگا اور نہ تکلیف و تھکن ہوگی»

(5) “قریظہ کے دن جبرئیل کا حسان بن ثابت کی مدد کرنا “:
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بنو قریظہ کے موقع پر حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ:

“اهْجُ الْمُشْرِكِينَ فَإِنَّ جِبْرِيلَ مَعَكَ” [صحيح البخاري: 4124]

«مشرکین کی ہجو کرو جبرائیل تمہاری مدد پر ہیں»

(6) “جبرئیل کا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کو خصوصی سلام”:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن فرمایا ہے کہ:

“يَا عَائِشَ هَذَا جِبْرِيلُ يُقْرِئُكِ السَّلَامَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ وَعَلَيْهِ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ،‏‏‏‏ تَرَى مَا لَا أَرَى،‏‏‏‏ تُرِيدُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ” [صحيح البخاري: 3768]

«اے عائش یہ جبرائیل علیہ السلام تشریف فرما ہیں اور تمہیں سلام کہتے ہیں، میں نے اس پر جواب دیا و علیہ السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ، آپ وہ چیز ملاحظہ فرماتے ہیں جو مجھ کو نظر نہیں آتی ہے، آپ کی مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تھی۔

(7) “جبرئیل کا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کی تصویر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کرنا”:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ:

“أَنَّ جِبْرِيلَ جَاءَ بِصُورَتِهَا فِي خِرْقَةِ حَرِيرٍ خَضْرَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ هَذِهِ زَوْجَتُكَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ” [سنن الترمذي: 3880]

«جبرائیل علیہ السلام ایک سبز ریشم کے ٹکڑے پر ان کی تصویر لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور کہا: یہ آپ کی بیوی ہیں، دنیا اور آخرت دونوں میں»

(8) “فرشتوں کا صحابہ کرام کے جنازے پر آسمان سے نزول”:
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:

“هَذَا الَّذِي تَحَرَّكَ لَهُ الْعَرْشُ، ‏‏‏‏‏‏وَفُتِحَتْ لَهُ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَشَهِدَهُ سَبْعُونَ أَلْفًا مِنَ الْمَلَائِكَةِ، ‏‏‏‏‏‏لَقَدْ ضُمَّ ضَمَّةً، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ فُرِّجَ عَنْهُ” [سنن النسائي: 2055]

«یہی وہ شخص ہے جس کے لیے عرش الٰہی ہل گیا، آسمان کے دروازے کھول دیے گئے، اور ستر ہزار فرشتے اس کے جنازے میں شریک ہوئے، پھر بھی قبر میں اسے ایک بار بھینچا گیا، پھر یہ عذاب اس سے جاتا رہا»

(9) “فرشتے کا سیدہ فاطمہ اور حسن و حسین کو خوشخبری دینے کے لیے اللہ سے اجازت لینا”:
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:

“سَأَلَتْنِي أُمِّي مَتَى عَهْدُكَ ؟ تَعْنِي بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ مَا لِي بِهِ عَهْدٌ مُنْذُ كَذَا وَكَذَا، ‏‏‏‏‏‏فَنَالَتْ مِنِّي، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ لَهَا:‏‏‏‏ دَعِينِي آتِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُصَلِّيَ مَعَهُ الْمَغْرِبَ وَأَسْأَلُهُ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لِي وَلَكِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّيْتُ مَعَهُ الْمَغْرِبَ فَصَلَّى حَتَّى صَلَّى الْعِشَاءَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ انْفَتَلَ فَتَبِعْتُهُ،‏‏‏‏ فَسَمِعَ صَوْتِي،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ مَنْ هَذَا حُذَيْفَةُ ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا حَاجَتُكَ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ وَلِأُمِّكَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ هَذَا مَلَكٌ لَمْ يَنْزِلِ الْأَرْضَ قَطُّ قَبْلَ هَذِهِ اللَّيْلَةِ اسْتَأْذَنَ رَبَّهُ أَنْ يُسَلِّمَ عَلَيَّ،‏‏‏‏ وَيُبَشِّرَنِي بِأَنَّ فَاطِمَةَ سَيِّدَةُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ” [سنن الترمذي: 3781]

«مجھ سے میری والدہ نے پوچھا: تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حال ہی میں کب گئے تھے؟ میں نے کہا: اتنے اتنے دنوں سے میں ان کے پاس نہیں جا سکا ہوں، تو وہ مجھ پر خفا ہوئیں، میں نے ان سے کہا: اب مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانے دیجیے میں آپ کے ساتھ نماز مغرب پڑھوں گا اور آپ سے میں اپنے اور آپ کے لیے دعا مغفرت کی درخواست کروں گا، چناچہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کے ساتھ مغرب پڑھی پھر آپ (نوافل) پڑھتے رہے، یہاں تک کہ آپ نے عشاء پڑھی، پھر آپ لوٹے تو میں بھی آپ کے ساتھ پیچھے پیچھے چلا، آپ نے میری آواز سنی تو فرمایا: کون ہو؟ حذیفہ؟، میں نے عرض کیا: جی ہاں، حذیفہ ہوں، آپ نے فرمایا: «ما حاجتک غفر اللہ لک ولأمك» کیا بات ہے؟ بخشے اللہ تمہیں اور تمہاری ماں کو پھر، آپ نے فرمایا: یہ ایک فرشتہ تھا، جو اس رات سے پہلے زمین پر کبھی نہیں اترا تھا، اس نے اپنے رب سے مجھے سلام کرنے اور یہ بشارت دینے کی اجازت مانگی کہ فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہیں اور حسن و حسین رضی اللہ عنھما اہل جنت کے جوانوں یعنی جو دنیا میں جوان تھے، ان کے سردار ہیں»

(10) “سیدنا جعفر کا جنت میں فرشتوں کے ساتھ پرواز کرنا”:
سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:

“رَأَيْتُ جَعْفَرًا يَطِيرُ فِي الْجَنَّةِ مَعَ الْمَلَائِكَةِ” [سنن الترمذي: 3763]

«میں نے جعفر کو جنت میں فرشتوں کے ساتھ اڑتے دیکھا ہے»

(11) “سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی معزز شخصیت اور فرشتوں کا حیا کرنا “:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ:

“كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُضْطَجِعًا فِي بَيْتِي كَاشِفًا عَنْ فَخِذَيْهِ – أَوْ سَاقَيْهِ – فَاسْتَأْذَنَ أَبُو بَكْرٍ فَأَذِنَ لَهُ وَهُوَ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ، فَتَحَدَّثَ، ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُمَرُ فَأَذِنَ لَهُ وَهُوَ كَذَلِكَ، فَتَحَدَّثَ، ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُثْمَانُ، فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَوَّى ثِيَابَهُ – قَالَ مُحَمَّدٌ: وَلَا أَقُولُ ذَلِكَ فِي يَوْمٍ وَاحِدٍ – فَدَخَلَ فَتَحَدَّثَ، فَلَمَّا خَرَجَ قَالَتْ عَائِشَةُ: دَخَلَ أَبُو بَكْرٍ فَلَمْ تَهْتَشَّ لَهُ، وَلَمْ تُبَالِهِ، ثُمَّ دَخَلَ عُمَرُ فَلَمْ تَهْتَشَّ لَهُ، وَلَمْ تُبَالِهِ، ثُمَّ دَخَلَ عُثْمَانُ فَجَلَسْتَ، وَسَوَّيْتَ ثِيَابَكَ ؟ فَقَالَ: ” أَلَا أَسْتَحْيِي مِنْ رَجُلٍ تَسْتَحْيِي مِنْهُ الْمَلَائِكَةُ ” [صحيح مسلم: 2401]

«رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں لیٹے ہوئے تھے، اس حال میں کہ آپ کی رانیں یا پنڈلیاں مبارک کھلی ہوئی تھیں اسی دوران حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اجازت مانگی تو آپ نے ان کو اجازت عطا فرما دی اور آپ اسی حالت میں لیٹے باتیں کررہے تھے، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت مانگی تو آپ نے ان کو بھی اجازت عطا فرما دی اور آپ اسی حالت میں باتیں کرتے رہے، پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اجازت مانگی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور اپنے کپڑوں کو سیدھا کرلیا، روای محمد کہتے ہیں کہ میں نہیں کہتا کہ یہ ایک دن کی بات ہے، پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اندر داخل ہوئے اور باتیں کرتے رہے تو جب وہ سب حضرات نکل گئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آئے تو آپ نے کچھ خیال نہیں کیا اور نہ کوئی پرواہ کی، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو بھی آپ نے کچھ خیال نہیں کیا اور نہ ہی کوئی پرواہ کی، پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو آپ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور آپ نے اپنے کپڑوں کو درست کیا تو آپ نے فرمایا اے عائشہ! کیا میں اس آدمی سے حیاء نہ کروں کہ جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں»

(12) “سیدنا اسید بن حضیر کی تلاوت اور فرشتوں کا نزول”:
سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:

“بَيْنَمَا هُوَ يَقْرَأُ مِنَ اللَّيْلِ سُورَةَ الْبَقَرَةِ وَفَرَسُهُ مَرْبُوطَةٌ عِنْدَهُ إِذْ جَالَتِ الْفَرَسُ فَسَكَتَ، ‏‏‏‏‏‏فَسَكَتَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَرَأَ فَجَالَتِ الْفَرَسُ، ‏‏‏‏‏‏فَسَكَتَ وَسَكَتَتِ الْفَرَسُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَرَأَ فَجَالَتِ الْفَرَسُ، ‏‏‏‏‏‏فَانْصَرَفَ وَكَانَ ابْنُهُ يَحْيَى قَرِيبًا مِنْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَشْفَقَ أَنْ تُصِيبَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا اجْتَرَّهُ رَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ حَتَّى مَا يَرَاهَا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا أَصْبَحَ حَدَّثَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اقْرَأْ يَا ابْنَ حُضَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏اقْرَأْ يَا ابْنَ حُضَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَشْفَقْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ تَطَأَ يَحْيَى وَكَانَ مِنْهَا قَرِيبًا، ‏‏‏‏‏‏فَرَفَعْتُ رَأْسِي، ‏‏‏‏‏‏فَانْصَرَفْتُ إِلَيْهِ فَرَفَعْتُ رَأْسِي إِلَى السَّمَاءِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا مِثْلُ الظُّلَّةِ فِيهَا أَمْثَالُ الْمَصَابِيحِ، ‏‏‏‏‏‏فَخَرَجَتْ حَتَّى لَا أَرَاهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَتَدْرِي مَا ذَاكَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ تِلْكَ الْمَلَائِكَةُ دَنَتْ لِصَوْتِكَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْ قَرَأْتَ لَأَصْبَحَتْ يَنْظُرُ النَّاسُ إِلَيْهَا لَا تَتَوَارَى مِنْهُمْ” [صحيح البخاري: 5018]

«رات کے وقت وہ سورة البقرہ کی تلاوت کر رہے تھے اور ان کا گھوڑا ان کے پاس ہی بندھا ہوا تھا، اتنے میں گھوڑا بدکنے لگا تو انہوں نے تلاوت بند کردی تو گھوڑا بھی رک گیا۔ پھر انہوں نے تلاوت شروع کی تو گھوڑا پھر بدکنے لگا، اس مرتبہ بھی جب انہوں نے تلاوت بند کی تو گھوڑا بھی خاموش ہوگیا، تیسری مرتبہ انہوں نے تلاوت شروع کی تو پھر گھوڑا بدکا، ان کے بیٹے یحییٰ چونکہ گھوڑے کے قریب ہی تھے اس لیے اس ڈر سے کہ کہیں انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچ جائے۔ انہوں نے تلاوت بند کردی اور بچے کو وہاں سے ہٹا دیا پھر اوپر نظر اٹھائی تو کچھ نہ دکھائی دیا، صبح کے وقت یہ واقعہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابن حضیر! تم پڑھتے رہتے تلاوت بند نہ کرتے تو بہتر تھا، انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے ڈر لگا کہ کہیں گھوڑا میرے بچے یحییٰ کو نہ کچل ڈالے، وہ اس سے بہت قریب تھا، میں سر اوپر اٹھایا اور پھر یحییٰ کی طرف گیا، پھر میں نے آسمان کی طرف سر اٹھایا تو ایک چھتری سی نظر آئی جس میں روشن چراغ تھے، پھر جب میں دوبارہ باہر آیا تو میں نے اسے نہیں دیکھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں معلوم بھی ہے وہ کیا چیز تھی؟ اسید نے عرض کیا کہ نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ فرشتے تھے تمہاری آواز سننے کے لیے قریب ہو رہے تھے اگر تم رات بھر پڑھتے رہتے تو صبح تک اور لوگ بھی انہیں دیکھتے وہ لوگوں سے چھپتے نہیں»

تحریر: افضل ظہیر جمالی

یہ بھی پڑھیں: عالمی منظر نامہ اور مسلم حکمران