سوال (35)

شیخ صاحب ایک فتویٰ متخصص دارالافتاء والتحقیق جامعہ دارالتقوی چوبرجی پارک لاہور سے شائع ہوا تھا ۔ جس میں مندرجہ ذیل احادیث سے فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کے بارے میں استدلال کیا گیا تھا تو آپ فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کے حوالے سے کیا فرماتے ہیں ؟

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الثَّقَفِيُّ الْمَرْوَزِيُّ،‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ،عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ،عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَابِطٍ،عَنْ أَبِي أُمَامَةَ،قَالَ:‏‏‏‏ قِيلَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏‏‏أَيُّ الدُّعَاءِ أَسْمَعُ؟ قَالَ:‏‏‏‏ جَوْفَ اللَّيْلِ الْآخِرِ،‏‏‏‏‏‏وَدُبُرَ الصَّلَوَاتِ الْمَكْتُوبَاتِ.

سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول! کون سی دعا زیادہ سنی جاتی ہے؟ آپ نے فرمایا: ”آدھی رات کے آخر کی دعا (یعنی تہائی رات میں مانگی ہوئی دعا) اور فرض نمازوں کے اخیر میں۔ [سنن الترمذي: 3499[
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نماز سے فارغ ہونے سے ہی پہلے ہاتھ اٹھا کر دعا کر رہا تھا تو جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما نے اس سے فرمایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تک نماز سے فارغ نہ ہوتے اس وقت تک (دعا کے لیے) ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے ۔
“رأى رجلا رافعا يديه يدعو قبل أن يفرغ من صلاته ، فلما فرغ منها قال : إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يكن يرفع يديه حتى يفرغ من صلاته”. [رواه الطبراني]

جواب:

واللہ اعلم ان روایات سے کس طرح اجتماعی دعا کے حوالے سے استدلال کیا گیا ہے؟
کسی خاص وقت میں دعا کی فضیلت سے اس وقت میں اجتماعی دعا کی مشروعیت ثابت نہیں ہوتی. اس کے لیے الگ سے دلیل کی ضرورت ہے، جو کہ موجود نہیں۔
ویسے سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ والی روایت کہ فرض نماز کے بعد دعائیں زیاہ قبول ہوتی ہیں اس روایت میں کلام ہے کہ عبدالرحمن بن سابط کا سماع سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے۔
(دیکھیے جامع التحصیل للعلائی :ص 222)
باقی جو سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا اثر ذکر کیا گیا ہے اس روایت میں اجتماعیت کی بحث ہی نہیں ہے ۔ اس میں یہ ذکر ہے کہ نماز کے اندر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا جائز نہیں، اس میں نماز کے بعد اجتماعی دعا کا ثبوت کدھر ہے؟۔

جواب:

بوقت ضرورت و حاجت دعا کسی بھی وقت کی جاسکتی ہے، نماز کے بعد کا بھی یہی حکم ہے۔ اس کو امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے “أمرِ عارض” سے تعبیر کیا ہے۔ یعنی بوقت ضرورت و حاجت اجتماعی یا انفرادی دعا ہوسکتی ہے۔ البتہ دوام اور ہمیشگی اختیار کرنا اس کے لیے دلیل کی ضرورت ہے، جو کہ موجود نہیں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ