سوال (1552)

فرض نماز کے بعد بلند آواز سے اللہ اکبر کہنے کا کیا حکم ہے؟ حالانکہ بعض الناس کہتے ہیں کہ یہ ثابت نہیں ہے۔

جواب

یہ قول مردود ہے ، نماز کے بعد ایک دفعہ بلند آواز سے “اللہ اکبر” اور بعد ازاں تین دفعہ “استغفر اللہ” کہنا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ مقلدین اس پر عمل نہیں کرتے ہیں ۔

“ھداھم الله و ایانا جمیعا”

سیدنا ابن عباس کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا مکمل ہونا تکبیر (اللہ اکبر کہنے سے) جانا جاتا تھا۔ [ابوداؤد]
فائدہ : سلام کے بعد اللہ اکبر اور تین دفعہ استغفر اللہ کہنا ثابت شدہ سنت ہے۔ جس روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے مکمل ہونے کا علم ذکر کی آواز سے ہوتا تھا۔ اس روایت سے تعیین ہوگئی کہ وہاں ذکر سے مراد اللہ اکبر کہنا ہے۔ حافظ عبدالستار الحماد رقم طراز ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نماز کا سلام پھیرنے کے بعد بآواز بلند اللہ اکبر کہا کرتے تھے۔ اس سے ثابت ہوا کہ امام اور مقتدیوں کو نماز سے فارغ ہوتے ہی بلند آواز سے ایک بار اللہ اکبر کہنا چاہیے۔ یہ کوئی اختلافی مسئلہ نہیں کے۔ اسی لیئے
الحمدللہ عاملین بالحدیث ھمیشہ سے اس پر عمل پیرا ہیں۔ اللہ کریم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں :

“كُنْتُ أعْرِفُ انْقِضاءَ صَلاةِ النبيِّ ﷺ بالتَّكْبِيرِ”

«میں نبی کریم ﷺ کی نماز ختم ہونے کو تکبیر ( الله اکبر ) کی وجہ سے سمجھ جاتا تھا»
[صحيح البخاري : 8420 ، صحيح مسلم : 583]

فضیلۃ العالم سید کلیم حسین شاہ حفظہ اللہ

یہ مسئلہ اختلافی ہے ، ہمارا رجحان اسی طرف ہے کہ نماز کے بعد استغفر اللہ سے ہی ابتداء کی جائے ، جس روایت میں تکبیر کے الفاظ آئے ہیں اس کہ مختلف توجیہات ہیں .

فضیلۃ الباحث داؤد اسماعیل حفظہ اللہ

دوران تعلیم جامعہ ابی بکر کراچی کے ایک شیخ افغانستان کے تھے ، ان سے ایک طالب علم نے اس موضوع پر بات کی تھی ، انہوں نے کہا کہ “استغفر الله” ہے ، ہم نے تکبیر والی حدیث اٹھا کے دیکھائی ، انہوں نے حلف اٹھا کے کہا کہ مجھے آج پتا چلا ہے کہ یہ حدیث بخاری میں ہے، لہذا نماز کے بعد “اللہ اکبر” کہنا یہ حدیث سے ثابت ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں ’التکبیر’ کا معنی یہاں اور ہے، جبکہ ہمارے ہاں اتفاق ہے کہ “اللہ اکبر” معنی بنتا ہے ، جیسے تکبیر تحریمہ ہے ، احناف کہتے ہیں کہ آپ کوئی بھی کلمہ تعظیم کہہ لیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کا ترجمہ “اللہ اکبر” سے کیا ہے ، یہ الفاظ بھی مل جاتے ہیں کہ “قل الله أكبر” “قال الله أكبر” ملتے ہیں ، اس کے باوجود بھی عرب و عجم کے اختلاف کی وجہ سے اب یہ مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے کہ تکبیر کا یہ معنی ہے وہ معنی ہے ، پہلے تکبیر کا ایک معنی “اللہ اکبر” تھا ، ہم آرام سے دلائل دکھا کے دفاع کر لیتے تھے ، اب جی تکبیر تحریمہ آجائے تو معنی اللہ اکبر ہے ، کہیں اور آجائے تو بولتے ہیں کہ اس کے اور معنی ہیں!!

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

شیخ معاملہ اتنا آسان نہیں جتنا سمجھ لیا گیا ہے ، ابن عباس سے مروی روایات میں اگر کہیں تکبیر کا ذکر ہے تو کچھ میں تکبیر کی جگہ “الذکر” کے الفاظ بھی ہیں کہ ہمیں نبی کریم کی نماز کی تکمیل کا علم ذکر سے ہوتا تھا ، اب وہ ذکر کیا تھا اس میں اجمال ہے ، اجمال کی تفصیل کے لیے دیگر روایات کو سامنے رکھنا ہو گا ۔
صحیح مسلم میں ہے:

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا انْصَرَفَ مِنْ صَلَاتِهِ اسْتَغْفَرَ ثَلَاثًا، وَقَالَ : ” اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ ۔۔۔۔”

فضیلۃ الباحث داؤد اسماعیل حفظہ اللہ

اللہ اکبر ذکر ہی ہے ، ہمارا موقف اپنی جگہ پر ہے ، جو اس کی تعبیر ذکر کرتے ہیں ، وہ ہمیں لکھ کہ دے دیں کہ اللہ اکبر ذکر نہیں ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

فضيلة الشيخ عبد المحسن العباد حفظه الله:

أورد أبو داود هذه الترجمة، وهي: [التكبير بعد الصلاة]، والمقصود من هذه الترجمة: إثبات التكبير، والذكر بعد الصلاة، وأنه يرفع بهما الصوت، وذكر التكبير؛ لأنه جاء في الرواية الأولى، وجاء في الثانية الذكر، وهو أعم من التكبير؛ لأن الذكر يشمل التكبير، وغير التكبير.
فهو أتى بالترجمة على الرواية الأولى، التي أوردها عن ابن عباس -رضي الله تعالى عنهما-، وأنه [(كان يعلم انقضاء صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم بالتكبير)]، أي: المتأخرين عن الإمام يسمعون التكبير، والتكبير لم يأت ما يدل على أنه بعد السلام، وإنما يقول: أستغفر الله، أستغفر الله، ويأتي بعد ذلك بالأذكار: سبحان الله، والحمد لله، والله أكبر، هذا هو الذي ثبت عن رسول الله صلى الله عليه وسلم؛ فالتكبير جاء مع التسبيح، والتحميد.
فالذي جاءت به الروايات: (أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا سلم، استغفر ثلاثا، ثم قال: اللهم أنت السلام، ومنك السلام، تباركت يا ذا الجلال والإكرام).
ثم الرواية الثانية ذكرت الذكر، وهو يشمل التكبير، وغير التكبير، ومعنى هذا أن لفظ الذكر، يكون مطابقا مع ما جاء في الروايات الأخرى، الدالة على أنه بعد الصلاة يؤتى بالذكر، الذي أوله الاستغفار، ثم: اللهم أنت السلام، ومنك السلام.. إلى آخره، وجاء في هذه الرواية ذكر التكبير، فيحمل على أن المقصود من ذلك ما يكون من التكبير مع التسبيح، والتحميد بعد الصلاة. انتهى

فضیلۃ الباحث داؤد اسماعیل حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد العزیز علوی حفظہ اللہ کی اس مسئلے میں امام مسجد نبوی فضیلۃ الشیخ صلاح البدیر حفظہ اللہ سے ایک مجلس میں اس حوالے سے بات ہوئی تھی، تو شیخ علوی نے شیخ صلاح کو بھی یہی کہا تھا کہ آپ اس حدیث کی ویسے ہی تاویل کرتے ہیں، جیسے ہمارے ہاں احناف احادیث کی تاویل کرتے ہیں…!!
فابتسم الشیخ حفظہ اللہ!

فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ

نماز کے بعد ایک دفعہ بآواز بلند اللہ اکبر کہنا مسنون عمل ہے ۔ کسی شخصیت کے بلند قامت ہونے کا یہ معنی نہیں کہ ہم ان کے فتوے سے مرعوب ہوکر عمل واھتمام بالسنہ کو ترک کردیں۔ ان بزرگان کا ہم دل وجان سے احترام کرتے ہیں۔ رحمھم اللہ وغفرلھم۔
شیخ البانی رحمہ اللہ مدرک رکوع کی رکعت کے قائل اور عورت کے چہرے کے پردے کے قائل نہیں ہیں۔ تو کیا ہم ان کے احترام میں ان مسائل سے دست بردار ہو جائیں گے؟
ائمہ اربعہ ایک وقت کی تین طلاقوں کے وقوع کے قائل ہیں۔ وہ یقینا ان عرب اھل علم سے بزرگ ترین تھے۔ توان کا احترام کرتے ھوئے ہمیں بھی اس کا قائل ہوجانا چاہیے۔۔!؟

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ