سوال (5501)

فرض نماز میں فقہی لحاظ سے کتنے ارکان، واجبات سنتیں ہوتی ہیں، اور کیا یہ تقسیم
احادیث میں بھی ہے؟ نیز نماز میں کونسے عمل ہیں جو رہ جائیں تو وہ رکعت دوبارہ پڑھنی پڑتی ہے، کونسی دعائیں یا عمل رہ جائیں تو سجد سہو ہوتا ہے تفصیل سے بتائیں؟

جواب

آپ کا سوال یہ ہے کہ فقہی لحاظ سے نماز میں فرض کتنے، ارکان کتنے، واجبات کتنے، سنتیں کتنی، اور کیا یہ تقسیم حدیث میں بھی ہے؟
تو جواب یہ ہے کہ حدیثِ مبارکہ میں اس طرح تقسیم نہیں کی گئی۔ الفاظ ضرور مل جائیں گے آپ کو “ولد یلد” سے جیسے “مِیلاد” بنا لیا جاتا ہے، یا “تَمَتَّعَ” سے “مُتَعہ” اخذ کر لیا جاتا ہے — اس طرح الفاظ تو مل جائیں گے، لیکن دینِ اسلام نے نماز کو اس طرح تقسیم نہیں کیا کہ اتنے فرائض، اتنی سنن، اتنے واجبات ہیں۔
فرض اور واجب میں جو فرق ہے، یہ بھی فقہاء کی رائے ہے۔ دلائل کی روشنی میں فرض اور واجب ایک ہی چیز ہیں۔
اب رہ گیا فقہی لحاظ سے کہ کتنے فرض، ارکان، واجبات اور سنتیں ہیں؟ تو کس کی فقہ؟ ہر فقہ کے اپنے اپنے مسائل ہیں۔ کیونکہ اہلِ علم کی رائے ہے، تو ظاہر سی بات ہے کسی نے کچھ سمجھا، کسی نے کچھ اور سمجھا۔ ہدایہ پڑھ لیں، آپ کو میرا خیال ہے ہر سوال کا جواب مل جائے گا۔
آپ کا اگلا سوال، یعنی سوال کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ کون کون سے عمل اگر رہ جائیں تو رکعت دوبارہ پڑھنی پڑتی ہے؟ یا کون سی دعائیں وغیرہ چھوٹ جائیں تو سجدہ سہو کرنا پڑتا ہے؟
تو تفصیل سے بتاتے ہیں، دلائل سے، فہمِ سلف سے، عملِ سلف سے جو سمجھا گیا ہے، اس کی روشنی میں فیصلہ ہوتا ہے کہ یہ چیز لازم ہے، حتمی ہے، اس کے بغیر گزارہ نہیں — اسے ہم فرض یا رکن کا نام دے دیتے ہیں۔ جیسے سورہ فاتحہ، قیام، رکوع، سجدہ — ان پر دلائل اور فہم دیکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے کہ رکعت دہرانا پڑے گی اور آخر میں سجدہ سہو بھی کرنا ہوگا۔
البتہ اس کے علاوہ جو چیزیں ہیں وہ اس درجے کی نہیں ہیں۔ مثلاً کوئی دعا چھوٹ گئی، پہلا تشہد چھوٹ گیا دلیل موجود ہے، سجدہ سہو سے خلا پُر ہو جائے گا۔
تو سوال یوں ہونا چاہیے کہ “فلاں صاحب سے، فلاں نماز میں، فلاں چیز رہ گئی، اس کا کیا حکم ہے؟”
تو شاید آپ کا سوال آسان ہو جائے اور جواب بھی۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ