سوال

کیا فرض روزے کے علاوہ ہفتے والے دن روزہ رکھنا منع ہے؟ اور اسکو سورہ فاتحہ پر قیاس کرنا کیسا ہے کہ جیسے کہا گیا ہے کہ سورہ فاتحہ کے علاوہ کوئی اور سورت امام کے پیچھے نہ پڑھو اسی طرح منع کیا گیا ہے کہ ہفتے کے دن فرض روزے کے علاوہ کوئی اور روزہ نہ رکھو لہذا ہفتے کے دن غیر فرض روزہ رکھنا حرام ہے؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

یہ بات حدیث میں بالکل موجود ہے کہ ہفتے کے دن سوائے فریضے کے روزہ نہ رکھو!

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 “لَا تَصُومُوا يَوْمَ السَّبْتِ إِلَّا فِيمَا افْتَرَضَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ”. [سنن الترمذی: 744]

”ہفتے کے دن روزہ مت رکھو، سوائے اس کے کہ جو اللہ نے تم پر فرض کیا ہو‘‘۔

لیکن ساتھ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بھی موجود ہے کہ آپ نے  حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالٰی عنہما کو صوم داودی کی اجازت دی ہے۔ جب انہوں  نے بار بار اصرار کیا کہ مجھے اور اجازت دیجیے اور اجازت دیجیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں فرمایا:

“أَحَبُّ الصِّيَامِ إِلَى اللَّهِ صِيَامُ دَاوُدَ، كَانَ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا”. [صحیح البخاری: 1131]

’’سب روزوں میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ روزے داؤد علیہ السلام کے تھے، وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے تھے‘‘۔

مثال کے طور پر اگر جمعے کا دن چھوڑنے کا ہے تو ہفتے کا دن رکھنے کا ہے اگر اتوار کا دن چھوڑنے کا ہے یا اکیلے ہفتے کا روزہ آگیا تو اب یہ صوم داودی کے تحت جائز ہے اور رکھا جا سکتا ہے۔

اور اسی طرح اگر ہفتے والے دن یوم عرفہ آ جاتا ہے تو عرفہ کا روزہ بھی رکھا جا سکتا ہے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  نے نہ صرف رکھا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“صِيامُ يومِ عَرَفَةَ، إِنِّي أحْتَسِبُ على اللهِ أنْ يُكَفِّرَ السنَةَ التي قَبلَهُ ، و السنَةَ التي بَعدَهُ”. [صحيح الجامع : 3853]

’’مجھے اللہ سے امید ہے کہ یوم عرفہ کا روزہ رکھنا دو سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ ایک گزرا ہوا سال اور دوسرا آنے والا سال‘‘۔

تو اس لحاظ سے یوم عرفہ کا روزہ بھی رکھا جا سکتا ہے۔

اگر اس دن محرم ( یوم عاشوراء) کا روزہ آگیا تو وہ بھی رکھا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی ایام بیض کے روزے رکھتا ہے یا عادتا نفلی روزے رکھتا رہتا ہے اور اس میں ہفتے کا دن آجائے تو وہ یہ روزے بھی رکھا جا سکتا ہے۔ یہ ساری روایات اس بات کی دلیل ہیں کہ ہفتے کا روزہ رکھنا جائز اور درست ہے اور جو آپ نے فرمایا ہے۔ کہ فرضی روزے کے علاوہ ہفتے والے دن روزہ نہ رکھو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی تعظیم کرتے ہوئے اکیلے ہفتے کا روزہ ٹھیک نہیں جس طرح اکیلے جمعے کا روزہ تعظیم کرتے ہوئے ٹھیک نہیں اسی طرح ہفتے کے دن کی تعظیم کرتے ہوئے اکیلے ہفتے کا روزہ ٹھیک نہیں ہے، باقی احادیث میں تو اس کی اجازت ہے، بلکہ آپ کا حکم ہے اور آپ کا عمل بھی ہے سو اس لحاظ سے اس کو فاتحہ پر قیاس کرنا یہ بالکل قیاس مع الفارق ہے یہ بالکل قیاس درست نہیں اس لیے کہ سنن ابی داؤد میں روایت ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے فجر کی نماز پڑھائی پیچھے سے آوازیں آئیں تو آپ پر قراءت مشکل ہو گئی سلام پھیر نے کے بعد آپ نے فرمایا:

شاید کے تم امام کے پیچھے پڑھتے ہو صحابہ کرام نے فرمایا کہ جی ہم بھی تیز تیز پڑھ رہے تھے وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“لَعَلَّكُمْ تَقْرَءُونَ خَلْفَ إِمَامِكُمْ قُلْنَا نَعَمْ هَذًّا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ لَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا”. [سنن أبی داؤد: 823، سنن الترمذی: 311]

”شاید کہ تم لوگ اپنے امام کے پیچھے پڑھتے ہو؟“ ہم نے کہا: ہاں، اے اللہ کے رسول! ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا: ”نہ پڑھا کرو مگر فاتحہ، کیونکہ جو اسے (فاتحہ کو) نہ پڑھے اس کی نماز نہیں“۔

یہاں یہ حصر ہے کہ فاتحۃ الکتاب کے علاوہ کچھ نہیں پڑھنا اس میں دو مسئلے ثابت ہو گئے ایک تو یہ کہ مقتدیوں کے لیے امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنا لازمی ہے اگرچہ نماز میں قراءت جاری ہی کیوں نہ ہو اور دوسرا مسئلہ یہ ثابت ہو گیا کہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی یعنی فاتحہ کے علاوہ کوئی اور سورت پڑھے گا تو وہ فاتحہ کی جگہ کفایت نہیں کرے گی کیونکہ یہاں حصر کے ساتھ آیا ہے کہ سورۃ فاتحہ کے علاوہ کچھ نہ پڑھو! اور جو سوال میں قیاس پیش کیا گیا ہے، یہ بالکل قیاس مع الفارق ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ