سوال (1996)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ فاسق لوگ جہنمی ہیں، پوچھا گیا ہے کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ فاسق کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عور تیں۔ ایک آدمی نے کہا ہے کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا یہ ہماری مائیں، بہنیں اور بیویاں نہیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں، لیکن جب انہیں دیا جائے تو یہ شکر نہیں کرتیں اور جب آزمائش آئے تو صبر نہیں کرتیں ہیں۔

جواب

سیدنا عبدالرحمٰن بن شبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“ان الفساق هم اهل النار. قيل: يا رسول الله! ومن الفساق؟ قال: النساء. قال رجل: يا رسول الله! اولسن امهاتنا واخواتنا وازواجنا؟ قال: بلى؛ ولكنهن إذا اعطين لم يشكرن، وإذا ابتلين لم يصبرن”

«بیشک «فساق» جہنمی ہیں۔ کہا گیا: اے اللہ کے رسول! «فساق» کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورتیں ہیں۔“ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا وہ ہماری مائیں، بہنیں اور بیویاں نہیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں، لیکن جب ان کو نعمتیں ملتی ہیں تو وہ ناشکری کرتی ہیں اور جب ان کو آزمایا جاتا ہے تو وہ صبر نہیں کرتیں۔
[المسند لشعيب : 15531، أخرجه أحمد: 15531 واللفظ له، وعبد بن حميد: 314 مطولاً، والطبراني في المعجم الأوسط بعد حديث: 2574 باختلاف يسير]
امام البانی رحمہ اللہ نے اس کو روایت کو “الصحيحة: 3058 میں ذکر کیا ہے۔

فضیلۃ العالم عبدالرحیم حفظہ اللہ

یہ روایت محدث البانی رحمه الله تعالى، موسوعہ حدیثیہ کے محققین کے نزدیک صحیح ہے، اس روایت کی سند میں بعض اہل علم نے کلام کر رکھا ہے۔

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

آپ کی مطلوبہ حدیث پر تحقیق وتوضیح پیش خدمت ہے:

یہ حدیث اﻟﻔﺴﺎﻕ ﻫﻢ ﺃﻫﻞ اﻟﻨﺎﺭ. ﻗﻴﻞ: ﻳﺎ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ! ﻭﻣﻦ اﻟﻔﺴﺎﻕ؟ ﻗﺎﻝ: اﻟﻨﺴﺎء. ﻗﺎﻝ ﺭﺟﻞ: ﻳﺎ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ! ﺃﻭﻟﺴﻦ ﺃﻣﻬﺎﺗﻨﺎ ﻭﺃﺧﻮاﺗﻨﺎ ﻭﺃﺯﻭاﺟﻨﺎ؟ ﻗﺎﻝ: ﺑﻠﻰ؛ ﻭﻟﻜﻨﻬﻦ ﺇﺫا ﺃﻋﻄﻴﻦ ﻟﻢ ﻳﺸﻜﺮﻥ، ﻭﺇﺫا اﺑﺘﻠﻴﻦ ﻟﻢ ﻳﺼﺒﺮﻥ
جامع معمر بن راشد: (19444)،مسند عبد بن حمید :(314)،مستدرک حاکم:(2773،شعب الإيمان للبيهقي:(9346) وغيره میں موجود ہے۔

موسوعہ حدیثیہ/ مسند أحمد کے محققین نے روایت کی سند کو صحیح کہا ہے (15666/ 3)
محدث البانی رحمه الله تعالى نےالصحيحة:(3058) میں اس روایت کو صحیح کہا ہے۔
جبکہ شیخ مصطفی العدوی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے کہا ہے کہ

ﺳﻨﺪ ﺿﻌﻴﻒ: ﻓﻴﻪ ﻳﺤﻴﻰ: ﻣﺪﻟﺲ ﻭﻗﺪ ﻋﻨﻌﻦ، ﻭﺗﻜﻠﻢ ﻓﻲ ﺳﻤﺎﻉ ﻳﺤﻴﻰ ﻣﻦ ﺯﻳﺪ، ﻗﺎﻝ اﻟﺤﺎﻓﻆ اﺑﻦ ﺣﺠﺮ ﻓﻲ اﻟﺘﻬﺬيب ﻓﻲ ﺗﺮﺟﻤﺔ ﺯﻳﺪ ﺑﻦ ﺳﻼﻡ, ﺑﻌﺪ ﺃﻥ ﺫﻛﺮ ﺗﻮﺛﻴﻘﻪ ﻋﻦ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﺑﻦ ﺳﻼﻡ: ﺃﺧﺬ ﻣﻨﻲ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻛﺜﻴﺮ ﻛﺘﺐ ﺃﺧﻲ ﺯﻳﺪ ﺑﻦ ﺳﻼﻡ. ﻭﻗﺎﻝ اﺑﻦ ﻣﻌﻴﻦ: ﻟﻢ ﻳﻠﻘﻪ ﻳﺤﻴﻰ. ﻭﻗﺎﻝ اﻷﺛﺮﻡ: ﻗﻠﺖ ﻷﺣﻤﺪ: ﻳﺤﻴﻰ ﺳﻤﻊ ﻣﻦ ﺯﻳﺪ ﺷﻴﺌﺎ؟ ﻗﺎﻝ: ﻣﺎ ﺃﺷﺒﻬﻪ!
ﻭﺃﺧﺮﺟﻪ ﺃﺣﻤﺪ “3/ 444” ﻭﺻﺤﺢ اﻟﺤﺎﻓﻆ اﺑﻦ ﺣﺠﺮ ﺟﺰءا ﻣﻦ ﺣﺪﻳﺚ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﺷﺒﻞ ﻫﺬا, ﺑﻌﺪ ﺃﻥ ﻋﺰاﻩ ﺇﻟﻰ: ﺃﺣﻤﺪ ﻭﻋﺒﺪ اﻟﺮﺯاﻕ، ﻭﻫﻮ: “ﻳﺴﻠﻢ اﻟﺮاﻛﺐ ﻋﻠﻰ اﻟﺮاﺟﻞ، ﻭاﻟﺮاﺟﻞ ﻋﻠﻰ اﻟﺠﺎﻟﺲ، ﻭاﻷﻗﻞ ﻋﻠﻰ اﻷﻛﺜﺮ، ﻓﻤﻦ ﺃﺟﺎﺏ ﻛﺎﻥ ﻟﻪ، ﻭﻣﻦ ﻟﻢ ﻳﺠﺐ ﻓﻼ ﺷﻲء ﻋﻠﻴﻪ”، ﻭﻗﺎﻝ: ﺳﻨﺪ ﺻﺤﻴﺢ. “ﻓﺘﺢ” “11/ 16”.
ﻭاﻟﺤﺪﻳﺚ ﺫﻛﺮﻩ ﺻﺎﺣﺐ “ﻣﺠﻤﻊ اﻟﺰﻭاﺋﺪ” “4/ 73″، ﻭﻋﺰاﻩ ﺇﻟﻰ اﻟﻄﺒﺮاﻧﻲ، ﻭﻗﺎﻝ: ﻭﺭﺟﺎﻝ اﻟﺠﻤﻴﻊ ﺛﻘﺎﺕ، ﻭﻟﻪ ﻃﺮﻳﻖ ﻓﻲ “اﻷﺩﺏ” ﺃﻃﻮﻝ ﻣﻦ ﻫﺬا.
ﻗﻠﺖ: ﻗﻮﻟﻪ: ﻭﺭﺟﺎﻝ اﻟﺠﻤﻴﻊ ﺛﻘﺎﺕ ﻻ ﻳﻠﺰﻡ ﻣﻨﻪ ﺛﺒﻮﺕ ﺻﺤﺔ اﻟﺴﻨﺪ، ﻓﻘﺪ ﻳﻜﻮﻧﻮﻥ ﺛﻘﺎﺕ ﺇﻻ ﺃﻥ ﻓﻴﻬﻢ ﻣﺪﻟﺴﺎ ﻟﻢ ﻳﺼﺮﺡ ﺑﻤﺎ ﻳﻔﻴﺪ اﻟﺴﻤﺎﻉ، ﺃﻭ ﻳﻜﻮﻥ ﻫﻨﺎﻙ اﻧﻘﻄﺎﻉ ﻛﻤﺎ ﻫﻮ اﻟﺤﺎﻝ ﻫﻬﻨﺎ
مسند عبد بن حميد :(314)

میں طیبی کہتا ہوں یحیی بن أبی کثیر کی زید بن سلام سے روایت کتاب سے ہے اور بعض ائمہ نے زید سے سماع کا اثبات بھی کیا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:

ﺣﺪﺛﻨﻲ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺣﺴﺎﻥ ) هو التنيسي البصري (ﻋﻦ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﺑﻦ ﺳﻼﻡ ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺬ ﻣﻨﻲ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻛﺜﻴﺮ ﻛﺘﺐ ﺃﺧﻲ ﺯﻳﺪ ﺑﻦ ﺳﻼﻡ
[المعرفة والتاريخ للفسوى:3/ 10 سنده صحيح]
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﺯﺭﻋﺔ ﻗﺎﻝ: ﻭﺣﺪﺛﻨﻲ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﻋﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺣﺴﺎﻥ ﻋﻦ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﺑﻦ ﺳﻼﻡ ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺬ ﻣﻨﻲ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻛﺜﻴﺮ ﻛﺘﺎﺏ ﺃﺧﻲ ﺯﻳﺪ ﺑﻦ ﺳﻼﻡ
[تاريخ أبي زرعة الدمشقي: ص:373،374 سنده صحيح]
ﻗﺎﻝ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺣﻤﺪ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﺼﻤﺪ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺣﺮﺏ ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﻳﺤﻴﻰ: ﻛﻞ ﺷﻲء ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﻼﻡ، ﻓﺈﻧﻤﺎ ﻫﻮ ﻛﺘﺎﺏ
[العلل ومعرفة الرجال برواية المروذي وغيره:(344) سنده صحيح]
ﺣﺪﺛﻨﻲ ﺳﻠﻤﺔ( هو ابن شبيب) ﻋﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ ﻗﺎﻝ: ﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﺼﻤﺪ عن ﺣﺮﺏ ﺑﻦ ﺷﺪاﺩ ﻗﺎﻝ ﻟﻲ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻛﺜﻴﺮ: ﻛﻞ ﺷﻲء ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﻼﻡ ﻓﺈﻧﻤﺎ ﻫﻮ ﻛﺘﺎﺏ۔
[المعرفة والتاريخ للفسوى:3/ 10 صحيح]
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﺼﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻮاﺭﺙ ﻋﻦ ﺣﺮﺏ ﺑﻦ ﺷﺪاﺩ ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﻟﻲ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻛﺜﻴﺮ: ﻛﻞ ﺷﻲء ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﻼﻡ
ﻓﺈﻧﻤﺎ ﻫﻮ ﻛﺘﺎﺏ
[التاريخ الكبير لابن أبي خيثمة السفر الثالث :(1260) صحيح]

امام ابن أبی حاتم الرازی نے کہا:

ﺳﻤﻌﺖ ﺃﺑﻲ ﻳﻘﻮﻝ ﺳﻤﻌﺖ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﻣﻌﻴﻦ ﻳﻘﻮﻝ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻛﺜﻴﺮ ﻟﻢ ﻳﺴﻤﻊ ﻣﻦ ﺯﻳﺪ ﺑﻦ ﺳﻼﻡ ﺷﻴﺌﺎ ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻲ ﻭﻗﺪ ﺳﻤﻊ ﻣﻨﻪ
[المراسيل لابن أبي حاتم الرازي:(896) سنده صحيح]

امام یحیی بن معین نے سماع کی نفی کی تو ساتھ ہی امام ابو حاتم الرازی نے جزام ویقین کے ساتھ قد سمع منه کہہ کر امام ابن معین کی تردید کر دی۔

ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﺣﺎﺗﻢ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﺗﻮﺑﺔ ﻋﻦ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﻳﻌﻨﻲ اﺑﻦ ﺳﻼﻡ ﻗﺎﻝ ﻗﺎﻝ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻛﺜﻴﺮ ﻗﺪ ﻛﺎﻥ ﺃﺑﻮﻙ ﻳﺠﻴﺌﻨﺎ ﻓﻨﺴﻤﻊ ﻣﻨﻪ
[المراسیل لابن أبی حاتم الرازی:(897) سنده صحيح]

ﺳﻤﻌﺖ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﻣﻌﻴﻦ ﻳﻘﻮﻝ ﻗﺪﻡ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﺑﻦ ﺳﻼﻡ ﻋﻠﻰ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺃﺑﻰ ﻛﺜﻴﺮ ﻓﺄﻋﻄﺎﻩ ﻛﺘﺎﺑﺎ ﻓﻴﻪ ﺃﺣﺎﺩﻳﺚ ﺯﻳﺪ ﺑﻦ ﺳﻼﻡ ﻭﻟﻢ ﻳﻘﺮﺃﻩ ﻭﻟﻢ ﻳﺴﻤﻌﻪ ﻣﻨﻪ

[تاريخ ابن معين رواية الدوري:(29) سنده صحيح]
اور کہا:

ﺳﻤﻌﺖ ﻳﺤﻴﻰ ﻳﻘﻮﻝ ﻟﻢ ﻳﻠﻖ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻛﺜﻴﺮ ﺯﻳﺪ ﺑﻦ ﺳﻼﻡ ﻭﻗﺪﻡ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﺑﻦ ﺳﻼﻡ ﻋﻠﻴﻬﻢ ﻓﻠﻢ ﻳﺴﻤﻊ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻛﺜﻴﺮ ﺃﺧﺬ ﻛﺘﺎﺑﻪ ﻋﻦ ﺃﺧﻴﻪ ﻭﻟﻢ ﻳﺴﻤﻌﻪ ﻓﺪﻟﺴﻪ ﻋﻨﻪ
اور کہا ﺣﺪﺙ ﺃﺑﻮ ﺳﻼﻡ ﻭﻟﻢ ﻳﻠﻘﻪ ﻭﻟﻢ ﻳﺴﻤﻊ ﻣﻨﻪ ﺷﻴﺌﺎ [تاريخ ابن معين رواية الدوري:3984،3985]

اور کہا:

ﻟﻢ ﻳﺴﻤﻊ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻛﺜﻴﺮ ﻣﻦ ﺯﻳﺪ ﺑﻦ ﺳﻼﻡ [تاريخ ابن معين رواية الدوري:5291]

اس سے دو باتیں ثابت ہوئیں
امام ابن معین نے براہ راست سماع کی نفی کی ہے، امام ابن معین کے مطابق ان کے پاس زید بن سلام کی کتاب تھی تو کتاب سے روایت صحیح ہوتی ہے
امام عجلی نے کہا:

ﻗﺪﻡ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﺑﻦ ﺳﻼﻡ ﻋﻠﻰ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻛﺜﻴﺮ ﻓﺄﻋﻄﺎﻩ ﻛﺘﺎﺑﺎ ﻓﻴﻪ ﺃﺣﺎﺩﻳﺚ ﺯﻳﺪ ﺑﻦ ﺳﻼﻡ ﻭﻟﻢ ﻳﻘﺮﺃﻩ ﻭﻟﻢ ﻳﺴﻤﻌﻪ ﻣﻨﻪ[الثقات للعجلى: 1823]

ﺃﻧﺒﺄﻧﺎ ﺃﺑﻮ اﻟﻘﺎﺳﻢ إسماعيل ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﻭﺃﺑﻮ اﻟﻔﻀﻞ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻧﺎﺻﺮ ( هو ابن محمد بن علي له ثقة حافظ مكثر له ترجمة حسنة في التقييد و في تاريخ بغداد وفي سير أعلام النبلاء وغيره )ﻗﺎﻻ ﺃﻧﺎ اﻟﻤﺒﺎﺭﻙ ( هو اﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺠﺒﺎﺭ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﻘﺎﺳﻢ الصيرفي محدث بغداد ومسندها ثقة مكثر أمينا له ترجمة مفصلة في تاريخ بغداد وفي سير أعلام النبلاء وغيره )ﺃﻧﺎ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ ( هو ابن أحمد بن إبراهيم البرمكي الفقيه الحنبلي ثقة إكمال الإكمال لابن نقطة،وفي تاريخ بغداد وفي سير أعلام النبلاء وغيره) ﺃﻧﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺧﻠﻒ(هو اﺑﻦ ﺑﺨﻴﺖ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ اﻟﺪﻗﺎﻕ اﻟﻌﻜﺒﺮﻱ ثقة ) ﺃﻧﺎ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ اﻟﺠﻮﻫﺮﻱ له ترجمة في تاريخ بغداد وقال الخطيب ﻭﻓﻲ ﺑﻌﺾ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﻧﻜﺮﺓ قلت ليس هذا الجرح قادح في هذه السند وروى عنه جماعة الثقات وهو معتمد في النقل ) ﻧﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻫﺎﻧﺊ ﻗﺎﻝ ﻗﻠﺖ ﻷﺑﻲ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻛﺜﻴﺮ ﺳﻤﻊ ﻣﻦ ﺯﻳﺪ ﺑﻦ ﺳﻼﻡ ﻓﻘﺎﻝ ﻣﺎ ﺃﺷﺒﻬﻪ[تاريخ دمشق:19/ 428سنده لا بأس به]

بعض اسانید میں سماع کی صراحت حدثنا کے ساتھ موجود ہے ملاحظہ فرمائیں

ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﺼﻤﺪ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻫﻤﺎﻡ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻳﺤﻴﻰ، ﺣﺪﺛﻨﻲ ﺯﻳﺪ ﺑﻦ ﺳﻼﻡ، ﺃﻥ ﺟﺪﻩ ﺣﺪﺛﻪ [مسند أحمد: 23298]اس روایت کی تعلیق میں لکھا ہے:

ﺇﻻ ﺃﻥ ﻓﻲ ﺳﻤﺎﻉ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻛﺜﻴﺮ ﻣﻦ ﺯﻳﺪ ﺑﻦ ﺳﻼﻡ ﺧﻼﻓﺎ، ﻭاﻷﺭﺟﺢ ﺃﻧﻪ ﻛﺘﺎﺏ ﺃﺧﺬﻩ ﻳﺤﻴﻰ ﻣﻦ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﺑﻦ ﺳﻼﻡ ﺃﺧﻲ ﺯﻳﺪ، ﻛﻤﺎ ﻗﺎﻝ ﻏﻴﺮ ﻭاﺣﺪ ﻣﻦ ﺃﻫﻞ اﻟﻌﻠﻢ، ﻭاﻟﺘﺼﺮﻳﺢ ﺑﺎﻟﺘﺤﺪﻳﺚ ﻓﻲ ﻫﺬﻩ اﻟﺮﻭاﻳﺔ ﻫﻨﺎ ﻭﻋﻨﺪ اﻟﻨﺴﺎﺋﻲ ﻳﺤﻤﻞ ﻋﻠﻰ ﺃﻥ ﺯﻳﺪ ﺑﻦ ﺳﻼﻡ ﺃﺟﺎﺯﻩ ﺃﺣﺎﺩﻳﺜﻪ ﻭﺑﻠﻐﻪ ﺇﺟﺎﺯﺗﻪ ﺃﺧﻮﻩ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ، ﻓﺤﺪﺙ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻬﺎ ﻋﻨﻪ ﻗﺎﺋﻼ: ﺣﺪﺛﻨﺎ، ﻭﻛﺎﻥ اﻷﻛﻤﻞ ﺃﻥ ﻳﻘﻮﻝ: ﺇﺟﺎﺯﺓ، ﻛﻤﺎ ﻗﺎﻝ اﺑﻦ اﻟﻘﻄﺎﻥ ﻓﻲ اﻟﻮﻫﻢ ﻭاﻹﻳﻬﺎﻡ [مسند أحمد بن حنبل:37/ 84]

ابن القطان الفاسی کا کلام ملاحظہ فرمائیں:

ﻭﻋﻨﺪﻱ ﺃﻧﻪ ﻣﻤﺎ ﻳﺠﺐ اﻟﺘﺜﺒﺖ ﻓﻴﻪ، ﻓﺈﻧﻪ ﻗﺪ ﺫﻛﺮ ﻓﻲ ﻧﻔﺲ اﻹﺳﻨﺎﺩ ﺃﻥ ﺯﻳﺪاﺣﺪﺛﻪ ﻓﻲ اﻟﺤﺪﻳﺜﻴﻦ ﺟﻤﻴﻌﺎ، ﻭاﻟﺮﺟﻞ ﺃﺣﺪ اﻟﺜﻘﺎﺕ ﺃﻫﻞ اﻟﺼﺪﻕ ﻭاﻷﻣﺎﻧﺔ، ﻭاﻟﻐﺎﻟﺐ ﻋﻠﻰ اﻟﻈﻦ ﺃﻥ ﺯﻳﺪا ﺃﺟﺎﺯﻩ ﺃﺣﺎﺩﻳﺜﻪ، ﻭﺑﻠﻐﻪ ﺇﺟﺎﺯﺗﻪ ﺃﺧﻮﻩ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ، ﻓﺤﺪﺙ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻬﺎ ﻋﻨﻪ ﻗﺎﺋﻼ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻭﻛﺎﻥ اﻷﻛﻤﻞ ﺃﻥ ﻳﻘﻮﻝ: ﺇﺟﺎﺯﺓ.
ﻭاﻟﺮﺟﻞ ﻣﻦ ﻣﺬﻫﺒﻪ ﺟﻮاﺯ اﻟﺘﺪﻟﻴﺲ، ﺑﻞ ﻛﺎﻥ ﻋﺎﻣﻼ ﺑﻪ، ﻓﺠﺎءﺕ ﺭﻭاﻳﺘﻪ ﻋﻨﻪ ﻣﻈﻨﻮﻧﺎ ﺑﻬﺎ اﻟﺴﻤﺎﻉ، ﻭﻟﻴﺴﺖ ﺑﻤﺴﻤﻮﻋﺔ.
ﻗﺎﻝ ﻋﺒﺎﺱ اﻟﺪﻭﺭﻱ: ﺳﻤﻌﺖ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﻣﻌﻴﻦ ﻳﻘﻮﻝ: ﻗﺎﻝ ﺑﻌﺾ اﻟﻤﺤﺪﺛﻴﻦ: ﻣﺎ ﺭﺃﻳﺖ ﻣﺜﻞ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻛﺜﻴﺮ، ﻛﻨﺎ ﻧﺤﺪﺛﻪ ﺑﺎﻟﻐﺪاﺓ، ﻭﻳﺤﺪﺛﻨﺎ ﺑﻪ ﺑﺎﻟﻌﺸﻲ.
ﻳﻌﻨﻲ ﺑﺬﻟﻚ ﺃﻧﻪ ﻛﺎﻥ ﻳﺪﻟﺲ، ﻭﻗﺎﻝ اﻟﺪاﺭﻗﻄﻨﻲ: ” ﺃﻧﻪ ﻛﺎﻥ ﻳﺪﻟﺲ ﻛﺜﻴﺮا “. ﻓﻴﻨﺒﻐﻲ ﻋﻠﻰ ﻫﺬا ﺃﻥ ﻳﻜﻮﻥ ﻓﻲ ﻣﻌﻨﻌﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻛﺜﻴﺮ ﻣﻦ اﻟﺨﻼﻑ- ﺑﺎﻟﻘﺒﻮﻝ ﺣﺘﻰ ﻳﺘﺒﻴﻦ اﻻﻧﻘﻄﺎﻉ، ﺃﻭ اﻟﺮﺩ ﺣﺘﻰ ﻳﺘﺒﻴﻦ اﻻﺗﺼﺎﻝ- ﻣﺜﻞ ﻣﺎ ﻓﻲ ﻣﻌﻨﻌﻦ ﻛﻞ ﻣﺪﻟﺲ.
ﻭﻳﺰﺩاﺩ ﺇﻟﻰ ﺫﻟﻚ ﻓﻲ ﺣﺪﻳﺚ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻛﺜﻴﺮ ﺃﻧﻪ ﺃﻳﻀﺎ ﻭﻟﻮ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ، ﺃﻭ: ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻓﻴﻨﺒﻐﻲ ﺃﻥ ﻻ ﻳﺠﺰﻡ ﺑﺄﻧﻪ ﻣﺴﻤﻮﻉ ﻟﻪ، ﻻﺣﺘﻤﺎﻝ ﺃﻥ ﻳﻜﻮﻥ ﻣﻤﺎ ﻫﻮ ﻋﻨﺪﻩ ﺑﺎﻹﺟﺎﺯﺓ، ﺃﻣﺎ ﺇﺫا ﺻﺮﺡ ﺑﺎﻟﺴﻤﺎﻉ ﻓﻼ ﻛﻼﻡ ﻓﻴﻪ، ﻓﺈﻧﻪ ﺛﻘﺔ، ﺣﺎﻓﻆ، ﺻﺪﻭﻕ، ﻓﻴﻘﺒﻞ ﻣﻨﻪ ﺫﻟﻚ ﺑﻼ ﺧﻼﻑ. [بيان الوهم والإيهام:2/ 378،379]

بعض مزید صیغہ تحدیث کے ساتھ اسانید ملاحظہ فرمائیں:

ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺳﺮﻳﺞ ﺑﻦ اﻟﻨﻌﻤﺎﻥ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﻣﻴﻤﻮﻥ ﻳﻌﻨﻲ اﻟﻌﻄﺎﺭ، ﺣﺪﺛﻨﻲ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻛﺜﻴﺮ، ﺣﺪﺛﻨﻲ ﺯﻳﺪ ﺑﻦ ﺳﻼﻡ۔۔۔ [مسند أحمد بن حنبل:(22909) صحيح]

ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ اﻟﺮﺑﻴﻊ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ اﻟﻤﺒﺎﺭﻙ، ﻋﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺯﻳﺪ ﺑﻦ ﺳﻼﻡ. [الأدب المفرد للبخارى:(992) صحيح]

یحیی بن أبی کثیر عن زید بن سلام کے طریق سے روایت صحیح مسلم میں
سند ملاحظہ فرمائیں:

ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﺑﻦ ﻣﻨﺼﻮﺭ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺣﺒﺎﻥ ﺑﻦ ﻫﻼﻝ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﺎﻥ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻳﺤﻴﻰ، ﺃﻥ ﺯﻳﺪا، ﺣﺪﺛﻪ ﺃﻥ ﺃﺑﺎ ﺳﻼﻡ، ﺣﺪﺛﻪ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻣﺎﻟﻚ اﻷﺷﻌﺮﻱ ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: اﻟﻄﻬﻮﺭ ﺷﻄﺮ اﻹﻳﻤﺎﻥ۔ [صحیح مسلم: 223]

امام ترمذی نے یحیی بن أبی کثیر کی زید بن سلام کے طریق سے مروی اس حدیث کے بعد کہا:

ﻫﺬا ﺣﺪﻳﺚ ﺻﺤﻴﺢ [سنن ترمذی: 3517]
اس طریق سے یہی روایت امام ابو عوانہ نے اپنی المستخرج:(600) میں نقل کر رکھی ہے
یاد رہے یہ روایت اور طرق سے بھی مروی ہے
امام ترمذی نے ایک اور حدیث جو یحیی بن أبی کثیر عن زید بن سلام کے طریق سے ہے کے بعد کہاﻫﺬا

ﺣﺪﻳﺚ ﺣﺴﻦ ﺻﺤﻴﺢ ﻏﺮﻳﺐ [سنن ترمذی: 2863]
اس طریق سے روایت امام ابن حبان نے اپنی الصحیح:(6233) میں نقل کر رکھی ہے
ان تصریحات کے بعد عرض ہے کہ اگر امام یحیی بن أبی کثیر کا زید بن سلام سے سماع حقیقی نہیں بھی ہو تو کتاب سے روایت صحیح ہوتی ہے الا کہ کسی قرینہ ودلیل سے کسی خاص روایت پر یا کہیں خطاء ثابت ہو جائے تو وہ اس عام اصول سے خارج اور ہم دیکھ چکے ہیں کہ یحیی بن أبی کثیر عن زید بن سلام کے طریق سے روایت امام مسلم نے الصحیح میں امام ابن حبان نے الصحیح میں،امام ابو عوانہ نے الصحیح میں نقل کی ہے اور امام ترمذی جیسے علل کے ماہر امام نے اس طرح سے مروی حدیث کو صحیح کہا ہے جس سے معلوم ہوا کہ اس طریق سے روایت ائمہ محدثین کے ہاں بالکل صحیح ہے کیونکہ امام یحیی بن أبی کثیر ثقة حافظ ائمہ کبار میں سے ہیں اور ان کے پاس معتبر وثقہ ذریعے سے زید بن سلام کی کتاب موجود تھی۔
اس لیے یہ حدیث ہمارے علم وفہم کے مطابق صحیح ہے إن شاءالله الرحمن

هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم أبو انس طيبى حفظہ اللہ