سوال

پاکستان میں ’ہیومن ملک بینک’ کے نام سے ماؤں کا دودھ اکٹھا کرنے کا ایک سلسلہ سامنے آیا ہے، کیا یہ جائز ہے؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

سب سے پہلے تو یاد رکھیں، شریعتِ اسلامیہ میں دیگر حلال و حرام کے مسائل کی طرح رضاعت کا مسئلہ بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ محض دودھ پینے پلانے کی بات نہیں ہے، بلکہ اس پر باقاعدہ شرعی احکام مرتب ہوتے ہیں۔

چنانچہ رضاعت سے باقاعدہ اسی طرح حلت و حرمت ثابت ہوتی ہے جس طرح  نسبی اور خونی رشتوں سے ثابت ہوتی ہے۔ جیسا کہ قرآنِ کریم میں اس کی صراحت ہے، ارشادِ باری تعالی ہے:

﴿حُرِّمَتۡ عَلَيۡكُمۡ أُمَّهَٰتُكُمۡ وَبَنَاتُكُمۡ وَأَخَوَٰتُكُمۡ وَعَمَّٰتُكُمۡ وَخَٰلَٰتُكُمۡ وَبَنَاتُ ٱلۡأَخِ وَبَنَاتُ ٱلۡأُخۡتِ وَأُمَّهَٰتُكُمُ ٱلَّٰتِيٓ أَرۡضَعۡنَكُمۡ وَأَخَوَٰتُكُم مِّنَ ٱلرَّضَٰعَةِ﴾ [النساء: 23]

یعنی جس طرح تمہارے نسبی رشتوں سے ماں، بیٹیاں، بہنیں تم پر حرام ہیں، اسی طرح تمہاری رضاعی مائیں اور بہنیں بھی تم پر حرام ہیں۔

اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“يحرم من الرضاعة ما يحرم من النسب”. [صحيح مسلم :1445]

’رضاعت سے بھی وہی حرمت حاصل ہوتی ہے، جو نسب سے ہوتی ہے‘۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا گیا کہ آپ اپنے چچا حمزہ رضی اللہ عنہا کی بیٹی سے شادی کر لیں، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“إنَّهَا لا تَحِلُّ لِي، إنَّهَا ابْنَةُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ، وَيَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَةِ ما يَحْرُمُ مِنَ الرَّحِمِ”. [صحيح مسلم :1447]

’وہ میرے لیے حلال نہیں ہیں، کیونکہ وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہیں، جو  رشتے خون کے سبب حرام ہوتے ہیں وہی رضاعت کے سبب بھی حرام ہوتے ہیں‘۔

کیونکہ حضرت حمزہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی خاتون کا دودھ پیا تھا۔

اسی طرح عقبہ بن حارث  رضی اللہ عنہ نے ام یعقوب بنت ابی اہاب بن عزیز رضی اللہ عنہا سے شادی کی، لیکن  ایک سیاہ فارم عورت نے کہا  کہ میں نے دونوں کو دودھ پلایا ہوا ہے ۔ عقبہ یہ مسئلہ لے کر رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم  کے پاس حاضر ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ رشتہ کیسے قائم رہ سکتا ہے جب رضاعت کی بات کر دی گئی ہے۔ چنانچہ عقبہ نے ام یعقوب سے علیحدگی اختیار کر لی اور اس نے کسی اور سے شادی کی۔  [صحيح بخارى:2640]

اس کے علاوہ اور کئی ایک واقعات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ رضاعت ہونے یا نہ ہونے سے شرعی احکامات میں کس قدر فرق پڑتا ہے۔

لہذا ایک مسلمان کو ان مسائل کو اس طرح نہیں لینا چاہیے، جس طرح کہ غیر مسلم یا آزاد خیال لوگ چیزوں کو دیکھتے ہیں۔ کیونکہ جن کے نزدیک مرد و عورت کے تعلقات میں حلال و حرام کی کوئی تمیز نہیں، تو وہ دودھ پینے پلانے میں یہ تکلف کیوں کریں گے؟

حالانکہ رضاعت سے حرمت کا ثبوت مسلمانوں کے ہاں ایک اجماعی اور متفق علیہ مسئلہ ہے، جس سے قرابت داری اور  حلت و حرمت کےثبوت میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔  [الإجماع ص82  والأوسط 8/ 548 لابن المنذر]

ہیومن ملک بینک  کا قیام اسلامی تعلیمات و قوانین کے ہم آہنگ نہیں، اس بات کو درج ذیل نکات میں واضح کیاجا سکتا ہے:

  • ملک بینک کے قیام سے رضاعت اور اس سے ثابت ہونے والے شرعی احکام متاثر ہوں گے، اور رشتوں اور قرابت داریوں سے متعلق انسان کم ازکم شک و شبہے کا ضرور شکار ہو گا۔ لہذا ہر وہ چیز جو شرعی احکام کی تعطیل اور فساد کا باعث بنے یا انسان کو اس حوالے سے شکوک و شبہات کا شکار کرے، اس سے گریز لازمی ہے۔
  • بچے کا براہ راست ماں کی چھاتی سے دودھ پینا اس کے ساتھ بچے اور ماں کی صحت کے کئی ایک مسائل جڑے ہوئے ہیں، ملک بینکس کی وجہ سے ماں اور بچہ دونوں صحت  کے اعتبار سے کئی ایک  اضرار و مفاسد کا شکار ہوں گے۔
  • عالم اسلام میں عرصہ دراز سے شیرخوار بچوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے رضاعت کا جو سلسلہ رائج ہے، اس کی موجودگی میں ایسے معاشروں سے ایک نیا سسٹم لے کر آنا، جن کا اپنا خاندانی نظام تباہ ہو چکا ہو، اس کی قطعا کوئی ضرورت نہیں ہے۔
  • حلیب بنک کے جواز کے لیے بعض مصالح اور ضروریات کا ذکر کیا جاتا ہے، حالانکہ اصول یہ ہے کہ “الضرر لا يزال بالضرر”و ” درء المفاسد أولى من جلب المصالح”.  کسی ایک نقصان کو ختم کرنے کے لیے مزید نقصان کرنا درست نہیں، اسی طرح جہاں مصالح و مفاسد کا ٹکراؤ ہو رہا ہو، وہاں مزید سہولیات  اور مصالح حاصل کرنے کے لیے نئے مفاسد کا دروازہ کھولنا جائز نہیں ہے۔
  • کسی بھی عورت کا دودھ پینے سے حرمتِ رضاعت ثابت ہو جاتی ہے، لیکن بعض احادیث و آثار  سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ  مرضعہ کے دودھ کا باقاعدہ بچے کی طبیعت پر اثر ہوتا ہے، اسی وجہ سے اہلِ علم نے  مرضعہ کے انتخاب میں احتیاط کا حکم دیا  ہے اور ایسی عورتوں سے اجتناب کا حکم دیا گیا ہے جن کی عادات و اطوار اور حرکات درست نہ ہوں۔  [السنن الكبير للبيهقي 16/ 44  ،المغني لابن قدامة 11/ 346]

جبکہ حلیب بنک میں عملا ایسی کوئی صورت موجود نہیں ہوتی کہ عورتوں اور ان کے  دودھ میں فرق کیا جا سکے۔

عالمی افتاء کمیٹیوں کے فتاوی:

جسے ہمارے ہاں ’مدرز ملک بینک‘ یا ’ہیومن ملک بینک‘ کہا جاتا ہے، عربی میں اسے “بنك حليب الأمهات” کہا جاتا ہے۔ جس پر مجمع الفقہ الاسلامی میں تفصیلی گفتگو ہوئی، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ عالم اسلام میں عرصہ دراز سے شیرخوار بچوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے رضاعت کا جو سلسلہ رائج ہے، وہ بہترین ہے،  مسلمانوں کو ’مدرز ملک بنکس‘ جیسے مغربی اقدامات کی قطعا کوئی حاجت نہیں ہے۔ لہذا اسلامی ممالک میں اس پر پابندی عائد کی جائے۔ [مجلة المجمع، العدد الثاني 1/383]

اسی طرح لجنۃ دائمہ سعودی عرب نے بھی اس کے حرام اور ناجائز ہونے کا فتوی جاری کیا ہے۔ [فتاوى اللجنة الدائمة – المجموعة الأولى 21/44]

اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ، شیخ بکر ابو زید رحمہ اللہ جیسے  اہلِ علم نے بھی اس کی حرمت اور عدم جواز کا ہی فتوی دیا ہے۔

بعض اعتراضات کا جائزہ اور اشکالات کی وضاحت

بعض لوگ اہلِ علم کے فتاوی اور شرعی مسائل کے بیان پر اعتراضات اور اشکالات پیش کرتے ہیں، ذیل میں ان میں سے بعض  کا  ذکر کرکے ان کا مختصر جواب عر ض کیا جاتا ہے:

(1)

کیونکہ ملک بینکس میں  دودھ نکال کر بچوں کو دیا جاتا ہے، وہ براہ راست عورتوں کی چھاتی سے دودھ نہیں پیتے تو یہ اشکال پیدا ہوا کہ   کیا رضاعت کے ثبوت کے لیے براہ راست عورت کے پستان سے دودھ پینا لازمی ہے؟

جواب:اس میں  جمہور اہل علم کا یہی موقف ہے کہ رضاعت کے ثبوت کے لیے براہ راست پستان سے پینا ضروری نہیں، اگر ویسے ہی کسی برتن وغیرہ میں دودھ نکال کر بھی پی لیا تو رضاعت ثابت ہو جاتی ہے، کیونکہ اصل اعتبار دودھ کا معدے اور دماغ میں پہنچ کر خوراک اور غذا بننا ہے وہ کسی بھی طریقے سے حاصل ہو جائے تو رضاعت ثابت ہو جائے گی۔   [صحيح فقه السنة 3/ 88]

بلکہ بعض فقہاء نے اس پر  اتفاق نقل کیا ہے، جیسا کہ ابن نجیم لکھتے ہیں:

«إنَّ ‌الْوَجُورَ، وَالسَّعُوطَ تَثْبُتُ بِهِ الْحُرْمَةُ اتِّفَاقًا». [البحر الرائق 3/ 246]

’وجور اور سعوط دونوں سے  بالاتفاق حرمتِ رضاعت ثابت ہو جاتی ہے‘۔

وجور کا مطلب ہے دودھ نکال کر کسی برتن کے ذریعے منہ کی طرف سے  دودھ  پلانا اور سعوط کا مطلب ہے کہ ناک کے ذریعے دودھ ڈالنا۔  [بغية المقتصد شرح بداية المجتهد 10/ 5931]

(2)

دودھ شریک تب ہوتا ہے جب پچہ ایک ماں کا دودھ پیئے اور کئی ماہ اس خاندان میں رہے۔ حالانکہ ملک بینک میں تو ایسی کوئی صورت حال نہیں ہے، بلکہ کوئی عورت اپنا دودھ جمع کروا دیتی ہے، وہاں دوسری عورتیں بھی جمع کروا دیتی ہیں۔ اس میں سے کوئی فرد دودھ خرید کر اپنے بچے کو پلا دیتا ہے۔ دوسری دفعہ وہ جس کا خریدتا ہے وہ پتہ نہیں کس ماں کا ہے؟ تو  اس سے رضاعت کیسے ثابت ہو سکتی ہے؟

جواب: یہ انوکھا نیا اور منفرد مسئلہ کس کتاب فقہ وحدیث سے اخذ کیا گیا ہے کہ کسی ایک ہی ماں کا دودھ پینے اور کئی ماہ خاندان میں رہنے کی شرط پر  رضاعت ثابت ہوگی ورنہ نہیں۔

اس میں کسی خاندان میں رہنے کی شرط یا کسی خاص مدت کا کہیں کوئی ذکر نہیں، البتہ اس بات میں قدرے اختلاف ہے کہ کتنی دفعہ دودھ پینے سے رضاعت ثابت ہوتی ہے؟

بعض اہل علم کے نزدیک ایک بار سیر ہو کر دودھ پی لینا کافی ہے، لیکن  کئی ایک اہل علم کے نزدیک قرآن وسنت کی رو سے راجح یہی ہے کہ کم از کم پانچ بار دودھ پینا ضروری ہے، ایک دو بار دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

“كان فيما أنزل من القرآن عشر رضعات معلومات يحرمن، ثم نسخن بخمس معلومات، فتوفي النبي – صلى الله عليه وسلم – والأمر على ذلك”.[ صحیح مسلم:1452]

شروع میں دس رضاعتیں حرام کرتی تھیں، پھر پانچ رضاعتوں سے حرمت کا حکم نازل ہوا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو یہی فیصلہ تھا۔

ایک اور حدیث میں ہے:

“لا تحرم المصة ولا المصتان”.[ صحيح مسلم:1451]

ایک دو دفعہ دوددھ پینے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔

لہذا  اگر کوئی بچہ  ایک دن میں پانچ مرتبہ دودھ پی لیتا ہے تو  اسی ایک دن میں ہی رضاعت ثابت ہو جائے گی۔

رہا یہ مسئلہ کہ ملک بینک میں تو ایک ماں کا دودھ نہیں ہوتا، بلکہ مختلف خواتین کا دودھ ہوتا ہے تو اس حوالے سے بھی  اہلِ علم نے وضاحت کی ہوئی ہے، جو کہ درج ذیل ہے:

ایک ہی بچے کو جب مقررہ مقدار یعنی کم از کم پانچ مرتبہ ایک سے زیادہ ماؤں کا دودھ ملا کر پلایا جائے، تو اس   سے ثبوتِ رضاعت کے حوالے سے تین صورتیں ہو سکتی ہیں:

ا۔  تمام سے ہی رضاعت ثابت ہو جائے۔ یہ حنابلہ اور  اکثر حنفیہ اور بعض شافعیہ کا موقف ہے۔

ب۔ کسی ایک سے رضاعت ثابت ہو، یعنی غالب کا اعتبار کیا جائے لہذا جس کا دودھ زیادہ ہو۔ اسی سے حرمت رضاعت قائم ہو جائے۔ یہ مالکیہ اور بعض احناف و  شوافع کا موقف ہے۔

( دونوں اقوال کی تفصیل کے لیے دیکھیں: النوازل فی الرضاع: 226۔230)

ج۔ تیسرا احتمال یہ بھی ہے کہ جب ایک سے زیادہ خواتین کا دودھ ملا کر پلایا جائے تو کسی سے بھی حرمت ثابت نہ ہو۔ یہ موقف کسی کا بھی نہیں ہے  لہذا یہ احتمال ساقط الاعتبار ہے۔

کئی بار ایک ماں کا دودھ بچے کو پلایا گیا اور اسی طرح کئی بار کسی دوسری ماں کا دودھ اسی بچہ کو پلایا گیا تو ’تعدد امھات من الرضاعۃ‘ سے رضاعت کی نفی نہیں بلکہ کئی خواتین کی رضاعی اولاد کا خلط ملط ہو نا ثابت ہوتا ہے جو زیادہ خطرناک ہے۔

امام قرافی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

«لو أرضعها أهل الأرض حرمن عليه لأنهن أمهات نسائه». [الذخيرة للقرافي 4/ 282]

یعنی اگر کسی بچی کو علاقے کی تمام خواتین نے دودھ پلایا ہو تو اس بچی سے شادی کرنے والے شخص پر تمام خواتین حرام ہو جائیں گی کیونکہ وہ اس کی بیوی کی رضاعی مائیں ہیں، جن سے شادی کرنا حرام ہے۔

فرض کریں کہ اگر اجتماعی مخلوط دودھ پلانے سے رضاعت ثابت نہیں ہو سکتی تو انفرادی طور پر الگ الگ کئی خواتین کے دودھ سے بھی رضاعت ختم شمار ہوگی؟

جب معترض خود یہ کہہ رہا ہے کہ پتہ نہیں کس خاتون کا دودھ کس بچے کو پلایا جائے گا، تو پھر احتمال تو یہ بھی ہے کہ بار بار ایک ہی خاتون کا دودھ ایک ہی بچے کے حصے میں آ جائے.. کوئی کس بنیاد پر یہ حتمی رائے دے سکتا ہے کہ اگر ایک دفعہ اگر کسی ایک ماں کا دودھ خرید لیا تو دوسری بار اس کا نہیں خریدا جائے گا؟!

اسی طرح اگر عورت کے دودھ کے ساتھ کوئی اور چیز ملا دی جاتی ہے مثلا پانی یا دوائی یا کوئی کیمیکل وغیرہ تواس میں بھی  غالب کا اعتبار کیا جائے گا،  یعنی  اگر دودھ زیادہ ہے تو  رضاعت ثابت ہو جائے گی اور یہ نہیں کہا جائے گا کہ مخلوط دودھ سے رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔

(3)

 ہم جاپان اور دوسرے غیر مسلم ملکوں کا بنا ہوا دودھ پلاتے ہیں، اس بات کی تحقیق کبھی نہیں کی کہ وہ حلال ہے یا نہیں؟

جواب: جاپان یا کسی اور ملک کے خشک دودھ پلانے سے رضاعت ثابت نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ خواتین/ماؤں کے دودھ کا دعویٰ نہیں کرتے۔ اور رضاعت کا تعلق عورت کے دودھ کے ساتھ ہے، ایسے تو نہیں ہے کہ اگر دو بچے کسی جانور کا دودھ پی لیں تو وہ آپس میں رضاعی  بہن بھائی بن جائیں گے!

دوسری بات یہ ہے کہ جہاں تحقیق نہیں ہو رہی، وہاں تحقیق کرنی چاہیے نہ کہ اس کو آڑ بنا کر مزید اور چیزوں کو بلا تحقیق قبول کرنے پر زور دیا جائے۔

(4)

 اس وقت جب دودھ شریک بھائی بہن کا زمانہ تھا اس وقت خون نہیں لگایا جاتا تھا، اگر یہ اس وقت ہوتا تو خون دینے والا تو سگا بھائی بن جاتا۔

جواب: کسی کی جان بچانے کے لیے خون دینے سے رشتہ خون / یا حلت و حرمت رضاعت کی کوئی دلیل نہیں، رضاعت کے مسائل دودھ پلانے سے وابستہ ہیں اور شریعت نے اس بنیاد پر باقاعدہ حلت و حرمت کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک منصوص مسئلے کو غیر منصوص پر کیسے قیاس کیا جا سکتا ہے؟

(5)

 اعضاء جیسا کہ گردہ جگر آنکھ وغیرہ اگر عطیہ کیے جا سکتے ہیں تو دودھ کیوں نہیں؟ کیا یہ چیزیں دودھ  سے اہم نہیں ہیں؟

جواب: اعضاء کی پیوندکاری/عطیہ کرنا بذات خود ایک اختلافی مسئلہ ہے، اس کو جائز بھی مان لیں پھر بھی اس کی حیثیت رضاعت جیسی نہیں ہے۔

(6)

اس موقع پر بعض لوگوں کی طرف سے رضاعتِ کبیر کا مسئلہ چھیڑا گیا ہے، لہذا اس کی وضاحت بھی مناسب معلوم ہوتی ہے۔

رضاعت کبیر کا مسئلہ اگرچہ  قدرے مختلف فیہ ہے، لیکن اس میں  ہمارے نزدیک راجح موقف یہی ہے کہ رضاعتِ کبیر  سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:

“إنما الرضاعة من المجاعة”. [صحيح البخاری:2647]

’رضاعت  بھوک سے ہے ‘۔

یعنی  رضاعت اسی عمر میں ثابت ہوتی ہے، جب وہ دودھ براہ راست بچے کی غذا بنتا ہو، او ر اس کی بھوک مٹاتا ہو۔ ایک اور روایت میں ہے:

“لا رضاع إلا في الحولين”. [موطا مالك:1290 ، سنن الدارقطني:4/174 ]

’رضاعت صرف دو سال کی عمر میں ثابت ہوتی ہے‘۔

اس سلسلے میں  سالم مولی ابی حذیفہ رضی اللہ عنہما والے واقعہ کو ایک استثنائی  صورت پر محمول کیا گیا ہے ، اسے عمومی اصول نہیں بنایا جائے گا۔ اصولی بات  یہی ہے کہ رضاعتِ کبیر سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔

اکثر صحابہ کرام  اور عموما اہل ِ علم کا بھی یہی موقف ہے ۔ امام ابن المنذر  رحمہ اللہ نے صراحت فرمائی ہے:

«وأكثر أهل العلم غير قائلين بقصة سالم هذا، ويحتجون في هذا بظاهر كتاب الله عز وجل وبالأخبار الثابتة عن نبي الله صلى الله عليه وسلم، وبأخبار أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم. وهو قول عوام أهل العلم، من أهل الحجاز، والعراق، والشام، ومصر، وغيرهم». [الأوسط لابن  المنذر 8/ 558]

جیسا کہ عرض کیا کہ راجح قول کے مطابق رضاعت کبیر ثابت نہیں ہوتی، لیکن پھر بھی ملک بینک سے مستفید ہونے والے بچے وہ ہوں گے جو ’کبیر’ کی بجائے ’صغیر’ اور ’شیر خوار’ کے زمرے میں ہی آئیں گے، لہذا اس حوالے سے رضاعت اور اس بنا پر حلت و حرمت کے سنگین مسائل پیدا ہوں گے۔

(7)

کچھ لوگ بعض اہلِ علم کے فتاوی ذکر کرتے ہیں کہ انہوں نے ملک بنک کے قیام کو جائز قرار دیا ہے. وغیرہ۔

جواب: اس حوالے سے گزارش ہے کہ ہم نے اوپر ا س کے عدم جواز اور اس کے دلائل کی وضاحت کردی ہے،  بلکہ جواز کے لیے پیش کیے جانے والے اشکالات کی بھی وضاحت کر دی ہے۔

دوسری بات: جن علمائے کرام نے جواز کی بات کی ہے، انہوں نے اس کے لیے جو شرائط اور احتیاطیں ذکر کی ہیں، کیا کسی ملک بینک میں ان شرائط و ضوابط کا خیال رکھا جاتا ہے؟

جیسا کہ ہم پہلے انٹرنیشل فتاوی کمیٹیوں کے حوالے سے ذکر کر چکے ہیں کہ یہ مسئلہ کبھی بھی مسلم معاشروں کی ضرورت نہیں رہا،  بلکہ لبرل قسم کے لوگ اسے اسلامی معاشروں میں دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یہ کیسی عجیب بات ہے کہ  آپ جواز کی بات ان علمائے کرام کی لے لیں جو شریعت کے  اصول و ضوابط کی بنیاد پر اس کی گنجائش کی بات کریں، لیکن عملا سسٹم اور نظام ان لوگوں کا نافذ کر دیں جو آزاد خیال اور لبرل قسم کے لوگ ہیں اور جن سے یہ توقع عبث ہے کہ وہ رضاعت جیسے دقیق اور پیچیدہ مسئلہ میں شریعت کا خیال رکھنے کی زحمت گوارہ کریں گے۔

یہ تو  اس قسم کے آوارہ لوگ ہیں کہ ایک شخص کا مادہ منویہ لے کر دوسرے کی بیوی میں رکھ دیتے ہیں، ایک عورت کا ایگ لے کر دوسری کو ڈونیٹ کروا دیتے ہیں۔ انہوں نے باقاعدہ بچے پیدا کروانے کے لیے کرائے کی مائیں متعارف کروائی ہوئی ہیں جو کہ سراسر شریعت کی مخالفت بلکہ فطرت کے خلاف جنگ ہے۔

(8)

شریعت میں بحالتِ اضطرار  انسانی جان بچانے کے لیے خنزیر کھانے کی بھی اجازت ہے، تو کیا بچوں کی جان بچانے کے لیے حلیب بینک کے قیام کی گنجائش نہیں ہوگی؟

جواب: بالکل شریعت میں اضطراری کیفیت میں گنجائش دی جاتی ہے،  لیکن پہلے تو اضطرار کا متحقق ہونا ضروری ہے، دوسرا اضطرار کے احکامات اسی حالت کے  ساتھ خاص ہوتے ہیں،  انہیں باقاعدہ اصول اور ضابطہ بنالینا اور معاشرے میں عام کر دینا جائز نہیں۔ مثلا اگر کسی شخص کو وقتی طور پر جان بچانے کے لیے حرام کھانے کی اجازت ہے، لیکن اس بنیاد پر وہ کہے کہ میں ہمیشہ سود خوری یا خنزیر کھانا شروع کردوں،  یہ جائز نہیں ہو گا، اسی طرح اس بنیاد پر اگر لوگ خنزیر کے گوشت کے ہوٹلز کھول لیں ، تاکہ کوئی مجبور و مضطر بوقت ضرورت جان بچا سکے، تو یہ جائز نہ ہو گا۔

حرفِ اخیر

ملک بینک بنانا درست نہیں لہذا اسلامی معاشروں میں اس سے گریز ضروری ہے۔ ورنہ رضاعت اور اس بنا پر حلت و حرمت  اور عادات و اخلاق کے  سنگین قسم کے  مسائل پیدا ہوں گے۔

اس مسئلہ میں ہمیں کم از کم سدا للذریعۃ پر عمل کرتے ہوئے اس قسم کے اقدامات کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیئے اور مسلمانوں کو اس سے دور رکھنا چاہیئے۔

متعلقہ اداروں سے گزارش ہے کہ وہ اس کی روک تھام کے لیے کام کریں  تاکہ معاشرہ ایک نئے فساد کا شکار نہ ہو۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ