سوال (697)

فضائل اور ترغیب و ترہیب میں ضعیف روایت کا حکم کیا ہے ؟

جواب

ایک عمل ہے اور ایک فضیلت عمل ہے ، فضائل اعمال کا مطلب یہ ہے کہ عمل اگر صحیح حدیث سے ثابت ہے ، اس کی فضیلت میں کسی ضعیف حدیث کو بیان کیا جا سکتا ہے ، یہ معنی فضائل اعمال میں ضعیف حدیث قبول کرنے کا ہے ، یہ معنی قطعا نہیں ہے کہ آپ اس عمل کو کہیں کہ ضعیف حدیث سے ثابت کیا جا سکتا ہے ، بہرحال ان دونوں چیزوں میں فرق کرنا چاہیے ، ایک عمل ہے اور ایک فضلیت عمل ہے ، عمل کا ثابت ہونا صحیح حدیث سے ضروری ہے ، پھر اس کے فضائل ہیں اس کے لیے ضعیف حدیث کو بیان کیا جا سکتا ہے ، ذرا اس پر غور کرلیں ، کبار علماء بھی یہی کہتے ہیں کہ عمل صحیح حدیث سے ثابت ہو البتہ اس عمل کی فضیلت ضعیف حدیث سے بیان کی جا سکتی ہے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الستار حماد حفظہ اللہ

”اعمال“ اور ”فضائل اعمال“ اور ”ضعیف حدیث”
جن اہل علم نے یہ بات کہی ہے کہ ”فضائل اعمال“ ميں ضعیف حدیث لے سکتے ہیں یا اس پر عمل کرسکتے ہیں ان کا یہ مقصود نہیں ہے کہ فضلیت والی احادیث ہی کو ”عمل“ کی اصل بنیاد اور دلیل بنالیاجائے بلکہ ان کامقصود یہ ہے کہ جو ”عمل“ اپنی جگہ پر اصلا ثابت شدہ ہو پھر اس کی ”فضیلت“ میں کوئی ضعیف حدیث مل رہی ہو جس میں اس ثابت شدہ عمل کی ترغیب ہو یا اس کا خاص اجر وثواب مذکور ہو تو اس اجروثواب کی امید کے ساتھ اس ”عمل“ کو انجام دیا جاسکتا ہے۔یعنی ”عمل“ کی ادائیگی کی اصل دلیل یہ ضعیف حدیث نہیں ہوتی بلکہ ضعیف حدیث محض اس عمل کی ادائیگی کے لئے تحریک اور ترغیب کا کام کرتی ہے۔
مثلا عید الاضحی میں قربانی کی مشروعیت صحیح احادیث سے ثابت ہے ۔اب اگر اس ثابت شدہ ”عمل“ کی ”فضیلت“ میں کوئی ضعیف حدیث مل جائے جس میں اس کا خاص اجروثواب ہو تو اس اجرو ثواب کی امید کے ساتھ اس عمل کو انجام دینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ چنانچہ کوئی شخص اگر اس فضیلت والی ضعیف حدیث کے پیش نظر قربانی کرنا چاہے تو اس کے لئے کہا جاسکتا ہے کہ وہ اس ضعیف حدیث پر عمل کرسکتا ہے کیونکہ اس کا تعلق محض فضائل اعمال سے ہے۔ اور اصل عمل (قربانی کرنا) اپنی جگہ دیگر دلائل سے ثابت شدہ ہے۔
یہ ہے اہل علم کی اس بات کا مفہوم کہ ”فضائل اعمال“ میں ضعیف حدیث پر عمل کیا جاسکتا ہے۔اور ان اہل علم نے ”فضائل“ میں اس طرح کی بات اس لئے کہی ہے کیونکہ ”عمل“ تو اپنی جگہ پر ثابت شدہ ہوتا ہے لہٰذا اس کی فضیلت میں وارد ضعیف حدیث سامنے رکھ کر عمل کیا جائے تو اس میں خسارہ والی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ اگر یہ فضیلت صحیح ہے تو اسے حاصل ہوگی اور صحیح نہیں ہے تو اصل عمل کا نارمل ثواب تواسے ملے گا ہی، کیونکہ اصل عمل دیگر صحیح احادیث سے ثابت ہے۔.
شيخ الاسلام ابن تیمیہ رحمه الله (المتوفى728) اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

فإذا روي حديث في فضل بعض الأعمال المستحبة وثوابها وكراهة بعض الأعمال وعقابها : فمقادير الثواب والعقاب وأنواعه إذا روي فيها حديث لا نعلم أنه موضوع جازت روايته والعمل به بمعنى : أن النفس ترجو ذلك الثواب أو تخاف ذلك العقاب كرجل يعلم أن التجارة تربح لكن بلغه أنها تربح ربحا كثيرا فهذا إن صدق نفعه وإن كذب لم يضره

جب بعض مستحب (یعنی ثابت شدہ) ”اعمال“ کی ”فضیلت“ اور اس کے ”اجروثواب“ میں اسی طرح بعض اعمال کی کراہت اور اس کے عقاب میں کوئی (ضعیف)حدیث مروی ہو تو خاص مقدار میں ثواب وعقاب وغیرہ سے متعلق مروی حدیث کے بارے میں جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ وہ من گھڑت ہے (یعنی وہ صرف معمولی ضعیف ہو) تو اس کو بیان کرنا اوراس پر عمل کرنا اس معنی میں جائز ہے کہ اس سے دل کو اس ثواب کی لالچ ہوگی اور اس عقاب سے دھشت ہوگی ۔مثال کے طور پر کسی آدمی کو یہ معلوم ہو کہ تجارت اپنی جگہ پر نفع بخش ہے (یعنی اس کی نظر میں اتنی بات اپنی جگہ پر پہلے سے ثابت ہے کہ تجارت میں ”نفع“ ہوتا ہے) لیکن اسے کوئی یہ بتائے کہ تجارت میں ”بہت ہی زیادہ نفع“ ہے (تو یہ شخص اگراس کی بات قبول کرلے اور اس امید پر تجارت شروع کردے ) تو اگر یہ بات سچ ثابت ہوئی تو اس کا فائدہ اسے ملے گا اوراگر جھوٹ ثابت ہوئی تو اس بات سے اسے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ [مجموع الفتاوى،الباز المعدلة: 18/ 66 ].
یہی معاملہ ثابت شدہ ”اعمال“ کے ”فضائل“ میں مروی ضعیف احادیث کا ہے کہ ضعیف احادیث میں بیان کردہ خاص بات سچ ثابت ہوئی توعمل کرنے والے کو یہ خاص فائدہ مل جائے گا اور اگر جھوٹ ثابت ہوئی تو گرچہ یہ خاص فائدہ نہ ملے تو لیکن اصل عمل کا نارمل ثواب تو اسے ملے گا ہی ۔یعنی دونوں صورتوں میں کوئی خسارہ کی بات نہیں ہے ۔ لہٰذا ”فضائل اعمال“ میں ضعیف حدیث پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔
الغرض یہ کہ اہل علم نے صرف ”فضائل اعمال“ میں ضعیف احادیث پر عمل کرنے کی گنجائش دی ہے نہ کہ ”اعمال“ میں۔افسوس کہ بہت سارے لوگ یہ بات سمجھ نہیں پاتے اور ”فضائل اعمال“ کے بجائے ”اعمال“ ہی میں ضعیف حدیث قبول کرلیتے ہیں اور اس پر عمل شروع کردیتے ہیں حالانکہ اصل اعمال میں ضعیف حدیث قبول کرنے کی بات ائمہ و محدثین میں سے کسی ایک نے بھی نہیں کہی ہے بلکہ سب کا اس بات پر اجماع ہے کہ اعمال کے ثبوت کے لئے ضعیف حدیث قابل حجت نہیں ہے ۔
شيخ الاسلام ابن تیمیہ رحمه الله (المتوفى728) فرماتے ہیں:

ولم يقل أحد من الأئمة إنه يجوز أن يجعل الشيء واجبا أو مستحبا بحديث ضعيف ومن قال هذا فقد خالف الإجماع

ائمہ میں سے کسی ایک نے بھی یہ بات نہیں کہی ہے کہ ضعیف حدیث کی بنیاد پر کسی عمل کو واجب یا مستحب بنانا جائز ہےاس لئے جو کوئی ایسی بات کرے وہ اجماع امت کا مخالف ہے۔[مجموع الفتاوى، الباز المعدلة:1/ 251]
يادرہے کہ اس سلسلے میں صحیح موقف یہی ہے کہ ضعیف حدیث نہ اعمال میں لی جائے گی اور نہ ہی فضائل اعمال میں ۔

فضیلۃ الشیخ كفايت الله السنابلي حفظہ اللہ
ناقل: فضیلۃ الباحث افضل ظہیر جمالی