فضیلة الشيخ محمد عزير شمس رحمه الله, ايک مثالی شخصیت

محمد ابراہیم بن بشیر الحسینوی اور ابو تیمیہ مجتبیٰ عالم بن محمد عارف کی مرتب کردہ کاوش ” محقق دوراں فضیلة الشيخ محمد عزير شمس رحمه الله: حيات و خدمات ” چند روز پہلے مکتبہ اسلامیہ فیصل آباد سے خرید کی ۔ صحت اور موسم کی مناسبت سے تھوڑا تھوڑا مطالعہ جاری رکھا ۔ آج حاصل مطالعہ سپرد قلم ہے ۔ یہ کتابی کاوش ‘ آیک سو سے زائد عرب و عجم کے شیوخ کی تحریروں پر مشتمل ہے ‘. جو شیخ محترم کی آنا فانا وفات حسرت آیات پر ہر صاحب تحریر کے دلی دکھی جذبات کی عکاسی ہے ۔
فنا فی العلم ، جامع العلوم و الفنون ، میمنی الصغیر محمد عزیر شمس رحمہ اللّٰہ 11 جمادی الاولی 1376ھ مطابق 15 دسمبر 1956 ء بمقام صالح ڈانگہ ضلع مرشد آباد ( مغربی بنگال ، بھارت) میں طلوع ہوئے اور 18 ربیع الاول 1444ھ مطابق 15 اکتوبر 2022 ء مکہ مکرمہ سعودی عرب میں غروب ہونے ( انا للہ و انا الیہ راجعون)۰ آپ کی موت نے بتایا کہ” مخلص اہل علم ” کی موت کا کیا غم ہوتا ہے ، موت العالم موت العالم کی حقیقت سمجھ آئی ۔
زندگی کی قیمتی سانسوں کو قیمتی تر بنانے کے لیے آپ کی حیات مستعار بارے مختلف تاثراتی مضامین سے اخذ کردہ چند باتیں نظر نواز قارئین کی جا رہی ہیں شاید کہ اتر جائے کسی کے دل میں کوئی بات ۔
اللہ تعالٰی نے جناب عزیر شمس رحمہ اللّٰہ کو وافر مقدار میں علم ، معرفت ، ذہانت ، ذکاوت ، فطانت ، اور زیرکی عنایت فرمائی تھی ۔ لفظ عبقری آپ کی شخصیت پر من کل الوجوہ فٹ ہوتا تھا ۔ حفظ و استحضار کی ایسی قوت کہ انسان حیران رہ جائے۔ جب بھی کسی شخصیت کا ذکر کرتے نام کے ساتھ ہی رساں سے سن وفات بیان کرتے ، چاہیے وہ شخصیت صدیوں قدیم ہو یا ماضی قریب سے ۔ جس کتاب کا ذکر کرتے اس کے مالہ و ماعلیہ کے ساتھ ساتھ مختلف ایڈیشن اور مختلف ایڈیشنوں کے فروق بھی سامنے لاتے۔ آپ کے سرعتِ مطالعہ ، وسعت اطلاع اور علمی گہرائی کی کوئی حد نہ تھی ۔ ذی علم ہونے کے باوجود آپ کی شخصیت میں کوئی تکبر ، انا، اکڑپن نہیں تھا ، بلکہ وافر مقدار میں حلم ، متانت ، سنجیدگی ، اخلاق عالیہ ، اوصاف حمیدہ ، تواضع ، خاکساری ، انکساری ، مہمان نوازی ، فروتنی اور عاجزی سے سرفراز تھے ۔ جس کا بین ثبوت کہ آپ اپنا دل اور دروازہ ہر ایک کے لئے کھلا رکھتے تھے ۔

تحریر: پروفیسر ڈاکٹر خالد ظفر اللہ

یہ بھی پڑھیں: شروط کلمہ توحید