سوال
اگر ہم کوئی چیز سیکھنے کے لئے فیس ادا کرتے ہیں اور سیکھنے کے بغیر ہی ہم وہ ادارہ دو یا تین دن بعد چھوڑ دیتے ہیں تو اس ادارے سے مجبوری کی وجہ سے فیس واپس مانگتے ہیں تو وہ لوگ فیس واپس نہیں کرتے کیا وہ پیسے اس ادارے کے لوگوں کے لئے حلال ہیں؟ کیا اس طرح جائز ہے؟ قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی فرما دیں۔
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
اس حوالے سے تین صورتیں بنائی جا سکتی ہیں:
پہلی صورت: جس ادارے نے فیس لی ہے، وہ خود فیس واپس کر دے، یہ بالکل جائز ہے، بلکہ اچھی بات ہے۔
دوسری صورت: معاہدے کے اندر یہ بات موجود ہو کہ فیس ناقابل واپسی ہو گی، چاہے کوئی کورس مکمل کرے یا نہ کرے۔ تو ایسی صورت میں فیس جمع کروانے والے اس کی واپسی کا مطالبہ نہیں کر سکتے، کیونکہ انہوں نے خود فیس جمع کرواتے وقت اس شرط کو مانا تھا، اور شرائط کی پاسداری ضروری ہے۔ ارشادِ نبوی ہے:
“الْمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ”.[ سنن أبي داود 3594، وصححه الألباني في صحيح أبي داود]
مسلمان اپنی شروط کی پابندی کرتے ہیں۔
خلیفہ ثانی عمر فاروق رضی اللہ عنہ یہ فیصلہ فرمایا کرتے تھے:
“إِنَّ مَقَاطِعَ الْحُقُوقِ عِنْدَ الشُّرُوطِ”. [السنن الكبرى للبيهقي 14826 وصححه الألباني في الإرواء6/303]
حقوق و فرائض میں اختلاف کے وقت شروط کی پاسداری کی جائے گی۔
تیسری صورت: اگر کسی معقول عذر کے سبب کوئی شخص کورس جاری نہیں رکھ سکتا اور ایسا کوئی معاہدہ بھی نہیں تھا کہ فیس ناقابل واپسی ہو گی، تو ایسی صورت میں ادارے کو چاہیے کہ وہ اس شخص کے عذر کو سامنے رکھتے ہوئے اس کی فیس واپس کریں، کیونکہ فیس در اصل خدمات اور سروسز کا معاوضہ ہوتا ہے، جب کوئی شخص کسی عذر کے باعث ان کی خدمات نہیں لے سکا، تو انہیں چاہیے کہ اس کی رقم بھی اس کو واپس کر دیں۔ ارشادِ نبوی ہے:
“من أقال مسلمًا بيعته أقاله الله عَثرته”. [سنن أبي داود]
جس نے کسی مسلمان کے ساتھ ڈیل کینسل کرنا قبول کیا، اللہ تعالی قیامت والے دن اس کی غلطیوں سے درگزر فرمائے گا۔
اس حدیث کے پیش نظر اگر دوسری صورت میں بھی نرمی اختیار کر لی جائے تو افضل و اولی اور بہتر ہے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ