سوال (2329)

سننے میں آیا ہے کہ “فیروزہ پتھر” جو انگوٹھی میں جڑوا کر پہنتے ہیں، اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ پتھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قاتل فیروز لولو کے نام سے منسوب ہے۔ کیا یہ بات درست ہے؟ اور اس کا پہننا جائز ہے؟

جواب

عوام الناس میں “فیروزہ پتھر” کے متعلق یہ بات مشہور ہے کہ یہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے قاتل فیروز لولو کی جانب منسوب ہے۔ یہ بات صرف مشہور ہے، اس کی وجہ تسمیہ سے متعلق ابو لؤلؤ فیروز کی نسبت کا تذکرہ کتابوں میں نہیں مل سکا، عام پتھر کی طرح یہ انگوٹھی بھی پہنی جا سکتی ہے، لیکن غلط عقیدہ کی بنیاد پر پہننا جائز نہیں ہے۔
اردو دائرہ معارف اسلامیہ میں ہے:
“اکفانی کہتا ہے کہ اس پتھر کا نام فیروزه اس لیے ہوا کہ یہ فتح مندی کا پتھر ہے، چنانچه اسی لیے اسے حجر الغلبه بھی کہتے ہیں، قرون وسطی کے لاطینی ترجموں میں لفظِ فيروزج کی کئی مسخ شدہ شکلیں ملتی ہیں (مثلا peruzegi, febrognug, farasquin وغيره)، لیکن ان میں سے کسی ایک کو بھی لفظ turquoise کا ماخذ قرار نہیں دیا جاسکتا، کیونکه الفاظ Turquesin turcoys اور turquesia تیرھویں صدی ہی سے شروع هو جاتے ہیں، لهذا هم یہ فرض کرنے میں حق . بجانب هیں که فیروزے کا یہ نام اس کے اصل مخرج کی بنا پر هوا، جو ترکوں کا قدیم وطن ہے، دیکھیے آرنولڈس ساکسو Arnoldus Saxo :”Turcoys…dictus a regione Turkya in qua nascitur” (فیروزے کا نام ترکستان کے علاقے پر ہے جہاں وہ پیدا ہوتا ہے)۔ یہ امر یقینی ہے کہ اس نام کا رواج پہلے پہل وینس اور ترکی کے درمیان تجارت کے سلسلے میں نہیں ہوا تھا۔”
[اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ج:15، ص:1077، شعبہ اردو دارئرہ معارف اسلامیہ، پنجاب یونیورسٹی، لاہور]

فضیلۃ العالم عبدالرحیم حفظہ اللہ

فیروزہ کو سنسکرت میں “پیروج” عربی میں ’’الفیروزج’’ یا ’’الفیروز’’، فارسی اور اردو میں ’’فیروزہ’’ اور انگریزی میں ٹرکوسائس/ ٹرکینا کہتے ہیں۔ یہ روغنی چمک کا مشہور پتھر ہے جس کا رنگ سبز سفیدی مائل، ہلکا و گہرا سبزی مائل اور آسمانی ہوتا ہے، جبکہ بعض فیروزے نیلے رنگ کے بھی ہوتے ہیں۔
کتبِ لغت یا تاریخ میں ایسے کوئی شواہد نہیں ملتے کہ اس پتھر کا نام ابولؤلؤ فیروز ملعون کے نام پر رکھا گیا ہے، ہاں اس کے برعکس ہو سکتا ہے کہ اس کا نام اس پتھر کی وجہ سے رکھا گیا ہو، جیسا کہ عموما اچھی اور قیمتی چیزوں پر بچوں کے نام رکھ دیے جاتے ہیں۔ اردو لغت کی ایک معروف کتاب کا نام بھی فیروز اللغات ہے۔
البتہ شیعوں کے ہاں اس پتھر کو کافی اہمیت دی جاتی ہے تو اس کی یہ وجہ ہو سکتی ہے کہ وہ ملعون فیروز مجوسی سے نام کی مشابہت کی وجہ سے اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہوں، اسی طرح بعض شیعہ کتب میں یہ روایت بھی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فیروزے والی انگوٹھی پہنا کرتے تھے، اگرچہ یہ بات ثابت نہیں ہے۔ بلکہ فیروزے وغیرہ پتھروں اور اس کی انگوٹھیاں پہننے کے جو دیومالائی قصے مشہور ہیں، ان میں سے کوئی بھی ثابت نہیں، سب من گھڑت باتیں ہیں۔

فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ

اس کا یہ سبب اور وجہ تسمیہ
ہمارے علم کے مطابق کسی معتبر روایت و ذرائع سے بیان نہیں ہوا ہے ، بلکہ روافض کے ہاں یہ سبب سے معروف ہے۔

بَابُ الفَيرُوزَجِ: : عدۃ من أصحابنا عن سهل بن زِيَاد رَفَعَهُ إِلَى أَبِي عَبدِ اللَّهِ قَالَ مَن تختم بِالفيرُوزج لم يفتقر كفه…: عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بنِ بُندَارَ عَن إِبْرَاهِيمَ بْنِ إِسْحَاقَ الْأَحمرِ عَنِ الْحَسَنِ بنِ سهل عَنِ الحَسَنِ بنِ عَلِيٍّ بنِ مِهرَانَ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى أَبي الحَسَنِ مُوسَى وَ فِي إصبعه خَاتَمَ فَصُّهُ فَيرُوزَجٌ نَقشُهُ اللَّهُ المَلِكُ فَأَدَمتُ النَّظَرَ إِلَيْهِ فَقَالَ مَا لَكَ تُدِيمُ النظَرَ إِلَيْهِ فَقُلْتُ بَلَغَنِي أَنَّهُ كَانَ لِعَلِي أَمِيرِ المُؤْمِنِينَ خَاتَمَ فَصُّهُ فَيُرُوزَجٌ نَقشُهُ اللَّهُ المكُ فَقَالَ أَتَعرِفُهُ قُلتُ لا فَقَالَ هَذَا هُوَ تَدرِي مَا سَبَبُهُ قُلْتُ لَا قَالَ هَذَا حَجَرٌ أَهْدَاهُ جبرئيل إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَوَهَبَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لِأَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ أَتَدرِي ما اسمه قُلتُ فَيرُوزَجٌ قَالَ هَذَا بِالفَارِسِيَّةِ فَمَا اسْمُهُ بِالعَرَبِيَّةِ قُلتُ لَا أَدْرِي قَالَ اسْمُهُ الظفر. [الكتب الاربعة (الفروع من الكافي)، كتاب الزي والتجمل والمروءة، باب الفيروزج، ج:1، ص:955]

ہمارے نزدیک یہ روایت بھی من گھڑت ہے ۔ البتہ یہ ایک معروف پتھر ہے جو دنیا کے بعض خطوں میں پایا جاتا ہے جسے لوگ بطور زیور و خوبصورتی کے پہنتے ہیں ۔
اس کا مختلف علاقوں میں ہونا:
الروض المعطار في خبر الأقطار: ص: 566
میں ہے
ﻣﻮﻗﺎﻥ :

ﻣﺪﻳﻨﺔ ﻣﻦ ﺧﺮاﺳﺎﻥ ﻣﻦ ﺃﻋﻤﺎﻝ ﻃﻮﺱ، ﻭﻫﻲ ﻣﻦ ﻏﺮ اﻟﺒﻼﺩ اﻟﻤﺬﻛﻮﺭﺓ، ﻭﻟﻬﺎ ﺳﻮﻕ ﻭﺳﻮﺭ ﺣﺼﻴﻦ، ﻭﺑﻬﺎ ﺗﺠﺎﺭ ﻣﻴﺎﺳﻴﺮ ﻭﺿﻴﺎﻉ ﻭﻓﻌﻠﺔ، ﻭﺑﻬﺎ ﺣﺼﻦ ﻣﻨﻴﻊ، ﻭﺑﻬﺎ ﻗﺒﺮ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﻣﻮﺳﻰ اﻟﺮﺿﺎ، ﻭﺑﺠﺒﻞ ﻣﻮﻗﺎﻥ ﻣﻌﺪﻥ اﻟﻔﻀﺔ ﻭاﻟﻨﺤﺎﺱ ﻭاﻟﺤﺪﻳﺪ، ﻭﻳﻮﺟﺪ ﻓﻴﻬﺎ ﻣﻦ ﺃﺣﺠﺎﺭ الفيروزج ﻛﺜﻴﺮ، ﻭﻛﺎﻧﺖ ﻣﻮﻗﺎﻥ ﺩاﺭ اﻹﻣﺎﺭﺓ ﺑﺨﺮاﺳﺎﻥ ﺇﻟﻰ ﺃﻳﺎﻡ اﻟﻄﺎﻫﺮﻳﺔ، ﻓﺎﻧﺘﻘﻞ ﻣﻨﻬﺎ ﺇﻟﻰ ﻧﻴﺴﺎﺑﻮﺭ ﻓﺨﺮﺏ ﺃﻛﺜﺮﻫﺎ ﻭﺗﻐﻴﺮﺕ ﻣﺤﺎﺳﻨﻬﺎ
ﺃﺳﺒﺮﺓ:
ﻧﺎﺣﻴﺔ ﺑﺄﻗﺼﻰ ﺑﻼﺩ اﻟﺸﺎﺵ ﺑﻤﺎ ﻭﺭاء اﻟﻨﻬﺮ، ﻭﻫﻲ ﺑﻼﺩ ﻳﺨﺮﺝ ﻣﻨﻬﺎ اﻟﻨﻔﻂ ﻭاﻝﻓﻴﺮﻭﺯﺝ ﻭاﻟﺤﺪﻳﺪ ﻭاﻟﺼﻔﺮ ﻭاﻟﺬﻫﺐ ﻭاﻵﻧﻚ، ﻭﻓﻴﻬﺎ ﺟﺒﻞ، ﺳﻮﺩ ﺣﺠﺎﺭﺗﻪ ﺗﺤﺘﺮﻕ ﻛﻤﺎ ﻳﺤﺘﺮﻕ اﻟﻔﺤﻢ، ﻳﺒﺎﻉ ﻣﻨﻬﺎ ﺣﻤﻞ ﺑﺪﺭﻫﻢ ﻭﺣﻤﻼﻥ، ﻓﺈﺫا اﺣﺘﺮﻕ اﺷﺘﺪ ﺑﻴﺎﺽ ﺭﻣﺎﺩﻩ ﻓﻴﺴﺘﻌﻤﻞ ﻓﻲ ﺗﺒﻴﻴﺾ اﻟﺜﻴﺎﺏ ﻭﻻ ﻳﻌﺮﻑ ﻓﻲ ﺑﻠﺪاﻥ اﻷﺭﺽ ﻣﺜﻞ ﻫﺬا، ﻗﺎﻟﻪ اﻹﺻﻄﺨﺮﻱ
[معجم البلدان:1/ 172]

عدن کے تحت ہے:

ﻭﺃﻣﺎ اﻟﺒﺎﻃﻨﺔ: ﻓﻬﻲ اﻟﺘﻲ ﻻ ﻳﻈﻬﺮ ﺟﻮﻫﺮﻫﺎ ﺇﻻ ﺑﺎﻟﻌﻤﻞ ﻓﻲ اﻟﻤﻌﺎﻟﺠﺔ ﻛﺎﻟﺬﻫﺐ ﻭاﻟﻔﻀﺔ والفيروزج ﻭاﻟﻴﺎﻗﻮﺕ ﻭاﻟﺮﺻﺎﺹ ﻭاﻟﻨﺤﺎﺱ ﻭاﻟﺤﺪﻳﺪ ﻭﺳﺎﺋﺮ اﻟﺠﻮاﻫﺮ اﻟﻤﺒﺜﻮﺛﺔ ﻓﻲ ﻃﺒﻘﺎﺕ اﻷﺭﺽ ﻭﻫﻞ ﻳﻤﻠﻚ ﻫﺬﻩ ﺑﺎﻻﺣﻴﺎء، ﻓﻴﻪ ﻭﺟﻬﺎﻥ ﺃﻇﻬﺮﻫﻤﺎ ﺃﻧﻬﺎ ﻛﺎﻟﻈﺎﻫﺮﺓ۔
[تهذيب الأسماء واللغة:4/ 10]

ماوراء النهر کے تحت ہے:

ﻭﻣﺪﻳﻨﺘﻬﺎ ﺧﻴﻼﻡ ﻭﺑﻬﺎ ﻣﻮﻟﺪ اﻻﻣﻴﺮ اﺑﻰ اﻟﺤﺴﻦ ﻧﺼﺮ ﺑﻦ اﺣﻤﺪ ﻓﻰ ﺩاﺭ ﺧﻴﺮ ﺑﻦ اﺑﻰ اﻟﺨﻴﺮ، ﻭﻳﺮﺗﻔﻊ ﻣﻦ ﻓﺮﻏﺎﻧﺔ اﻛﺜﺮ ﻣﺎ ﻓﻰ اﻳﺪﻯ اﻟﻨﺎﺱ ﻣﻦ اﻟﺬﻫﺐ ﻭاﻟﻔﻀﺔ ﻭاﻟﺰﻳﺒﻖ ﻭﻳﺨﺮﺝ ﻣﻦ ﺟﺒﺎﻟﻬﺎ اﻟﺠﺮاﻍ ﺳﻨﻚ والفيروزج ﻭاﻟﺤﺪﻳﺪ ﻭاﻟﺼﻔﺮ ﻭاﻟﺬﻫﺐ ﻭاﻵﻧﻚ، ﻭﺑﺄﺳﺒﺮﺓ ﺟﺒﻞ ﺣﺠﺎﺭﺓ ﺳﻮﺩ ﺗﺤﺮﻕ ﻛﻤﺎ ﻳﺤﺮﻕ اﻟﻔﺤﻢ ﺗﺒﺎﻉ ﻣﻨﻪ ﺛﻼﺛﺔ اﻭﻗﺎﺭ ﺑﺪﺭﻫﻢ ﻭﺭﻣﺎﺩﻩ ﻳﺒﻴﺾ اﻟﺜﻴﺎﺏ اﻟﻤﺴﺎﻓﺎﺕ ﺑﻤﺎ ﻭﺭاء اﻟﻨﻬﺮ…….
[المسالك والممالك للاصطخري:ص:334]
ﻭﺑﻨﻮﻗﺎﻥ ﻣﻌﺪﻥ اﻟﻘﺪﻭﺭ اﻟﺒﺮاﻡ ﻭﺗﺤﻤﻞ اﻟﻰ ﺳﺎﺋﺮ ﺑﻼﺩ ﺧﺮاﺳﺎﻥ ﻣﻦ ﺟﺒﻠﻬﺎ ﻭﻓﻰ ﻫﺬا اﻟﺠﺒﻞ ﻏﻴﺮ ﻣﻌﺪﻥ ﻣﻦ اﻟﻨﺤﺎﺱ ﻭاﻟﺤﺪﻳﺪ ﻭاﻟﻔﻀﺔ والفيروزج ﻭاﻟﺨﻤﺎﻫﻦ ﻭاﻟﺪﻫﻨﺞ۔۔۔۔۔۔
[صورة الأرض:2/ 434]

الفيروزج اسی پتھر کو کہا جاتا ہے جو قدرتی جواہر واشیاء میں سے ایک ہے جس کا کسی شخصیت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یاد رکھیں کوئی پتھر کسی کے نفع ونقصان کا مالک نہیں ہے پتھروں سے منسوب جو بھی نظریات قائم کیے جا چکے ہیں سب باطل اور قابل مذمت ہیں۔
اس پتھر کا ذکر اور بھی کتب میں مل جاتا ہے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ