فکری ارتداد کی جانب گامزن مسلم نوجوان۔۔۔۔
پہلی قسط
موجودہ دور مغربی فکر وفلسفہ اور مادی نظاموں کے غلبے کا دور ہے۔ مغرب کی موجودہ فکر نے اِنسانیت پر صرف اپنے گہرے اَثرات ہی نہیں مرتب کیے بلکہ انسانی زندگیوں کو اپنے مطلوبہ سانچوں کے مطابق ڈھالا بھی ہے جس کی وجہ سے اَقدار و روایات کا مضبوط نظام تلپٹ ہو کر رہ گیا ہے۔
ان کٹھن اور تلخ حالات نے سب سے زیادہ مسائل ہمارے مسلم نوجوانوں کے لئے پیدا کئے ہیں جو ایک ایسے دین کے پیروکار ہیں جو اپنے دائمی اور آفاقی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، جو اپنی تعبیر میں لا محدود وسعتوں کا قائل ہے، ایسے دین کی اِتباع میں اس سے غیر متعلقہ پیوندکاری کی کیسے گنجائش نکل سکتی ہے۔۔۔؟
دوسری طرف سے پریشانی یہ ہے کہ پُرفتن حالات میں بھی علمائے اسلام کی طرف سے ایسا کوئی حل پیش نہیں کیا جارہا جو درپیش مسائل کو مکمل طور پر حل کر نے کی ضمانت دے۔ پھر اس سے بھی بڑھ کر اَلمیہ یہ ہے کہ نوجوان کو اپنے ماحول اور معاشرے میں اپنی دینی ثقافت کا رنگ بھی نظر نہیں آتا۔
بوڑھوں کی زندگیاں اپنی ایک خاص سانچے میں ڈھلی ہوئی ہیں اور وہ چاہ کر بھی ان خانوں سے باہر نہیں نکل سکتے تو ایسے حالات میں مسلم نوجوانوں کو راہ کون دکھائے ۔۔۔ علماء کوئی خاص توجہ نہیں کر رہے بوڑھوں کو بات سمجھ نہیں آ رہی اور یہ نوجوان دین میں تشکیک کا شکار ہو کر الحاد کی جانب مائل ہیں۔۔۔
3 اگست کو لاہور میں شعائر اللہ کے دفاع کے لئیے ایک خواص کی نشست قرآن و سنہ موومنٹ پاکستان کی طرف سے منعقد کی گئی تھی جس میں کئی شرکاء نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ پاکستان میں بسنے والے کلمہ گو نوجوانوں توہین شعائر اللہ کی جانب گامزن کیوں ہیں؟
اسباب و محرکات پیش خدمت ہیں۔۔۔
مسلمانوں کو اس وقت دو قسم کے نوجوانوں سے ڈیل/اصلاح/ کونسلنگ کرنے کی ضرورت ہے۔
1. وہ نوجوان جو الحاد و دہریت کی راہ اختیار کرچکےہیں۔
2. وہ نوجوان جو ہیں تو ابھی تک مسلمان مگر دونوں رجحانات کے درمیان ابھی تک حیران و پریشان ہیں۔
* پہلی قسم کا نوجوان وہ ہے جو اَپنے عقیدے میں منحرف، رویے میں جلد باز، اپنی ذات میں متکبر اور رذائل میں ڈوبا ہوا، اس پر کمال یہ کہ حق قبول نہیں کرتا اور باطل سے پیچھے نہیں ہٹتا۔ اپنے معاملات میں ایسا آزادانہ رویہ اختیار کرتا ہے گویا کہ وہ دنیا کے لیے اور دنیا صرف اس اکیلے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔
* یہ نوجوان اللہ کے حقوق اور بندوں کے حقوق کو ضائع کرنے پر کسی قسم کی پروا اور ہچکچاہٹ کا سامنا نہیں کرتا۔
* یہ نوجوان لاقانونیت کا حامی اور انارکی مزاج رکھتا ہے، اپنے رویے اور تمام معاملات میں غیر معتدل ہوتا ہے۔ اپنی رائے کو ایسے پسند کرتا ہے گویا اسی کی زبان پر حق جاری ہوتا ہےاور دوسرے صرف غلطیوں اور خطاؤں کے پتلے ہیں۔
* یہ نوجوان اپنے دین کے معاملے میں سیدھی راہِ سے بھٹکا ہوا ہوتا ہے، لیکن اسے اپنا برا عمل بڑا خوبصورت لگتا ہے چنانچہ وہ اسے اچھا ہی سمجھتا ہے۔ درحقیقت اپنے اَعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد وہی لوگ ہیں جن کی دنیا کی زندگی میں ساری سعی و جہد راہِ راست سے بھٹکتے گزری او روہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کررہے ہیں۔
* یہ نوجوان اپنی ذات میں منحوس اور اپنے معاشرے کے لئیے مصیبت ہوتا ہے۔ اور یہ امت کے لئیے صرف اور صرف زلت و رسوائی کا سبب بنتا ہے۔
*دوسری قسم کا نوجوان وہ ہے جو حیران و پریشان ہوتا ہے۔وہ واضح طور پہ صراط مستقیم کی شاہراہ کی بجائے چوکوں اور چوراہوں پر ہی متردّد و متحیر کھڑا رہتا ہے۔
* یہ نوجوان حق کو پہچان جاتا ہے، اس پر مطمئن بھی ہوجاتا ہے اور معاشرے میں نیک بن کر زندگی بسر کررہا ہوتا ہے۔ مگر اَچانک اس پر ہر طرف سے بُرائی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ پھر اس کے عقیدے میں شک، رویے میں اِنحراف اور فکر میں ارتداد اور عمل میں فساد پیدا ہوجاتا ہے۔
* اس طرح کا نوجوان جو اپنی طرزِ زندگی میں منفی رویہ اختیار کرتا ہے۔ وہ ایک مضبوط سہارے کا محتاج ہوتا ہے جو اسے حق کی طرف لے جائے۔ ایسے نوجوان کو جب اللہ تعالیٰ خیر کی راہ عطا فرماتے ہیں تو اس پر بھلائی کا راستہ آسان ہوجاتا ہے بالخصوص جب وہ صاحبِ حکمت، صاحبِ علم اور خلوص نیت کا حامل ہو۔
* اس طرح کے نوجوانوں نے پرورش تو ایک اسلامی معاشرے میں پائی ہوتی ہے، لیکن سائنسی علوم بہت زیادہ پڑھے ہوتے ہیں۔ان سائنسی علوم کی تعبیر یا تو حقیقتاً شریعتِ اسلامیہ کے مخالف ہوتی ہے یا وہ نوجوان اپنی کج فہمی کی بنا پر اسے اسلام مخالف سمجھ بیٹھتے ہیں۔
جاری ہے۔۔۔
اگلی قسط میں اسباب اور حل کی بات کی جائے گی ابھی صرف نشاندہی کی ہے۔۔۔
ڈاکٹر صلاح الدین
https://www.facebook.com/share/p/1LgfTUUHt5/
یہ بھی پڑھیں:شیخ المشائخ مفتی عبیداللہ خان عفیفؒ کی بھولی بسری یادیں!