سوال (4215)
کیا ایسی مسجد بنانا جائز ہے جو فلیٹس میں ہو اوپر نیچے رہائشی مکانات ہوں یا ایسی مسجد جس کے اوپر یا نیچے مارکیٹ ہو اور مسجد دوسری منزل پر ہو؟ کیا اس کے جواز فتویٰ دیا گیا ہے؟ کہا جاتا ہے کہ مسجد اصل میں زمین کا نام ہے، عمارت کا نہیں ہے۔
جواب
جی ہاں! اس طرح مسجد بنائی جا سکتی ہے، مسجد دو طرح کی ہوتی ہے، ایک تو وقف والی جگہ پر، اور ایک وہ مسجدجو ذاتی پراپرٹی پر ہوتی ہے، اس میں اتار چڑھاؤ کی گنجائش ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
مسجد جہاں بنا دی جائے وہ مسجد کا حکم ہی رکھتی ہے، اوپر یا نیچے، ہمارے ہاں کراچی میں کئی ایسی مساجد ہیں جو فلیٹوں اور مارکیٹ کے اوپر یا نیچے ہیں، مشہور زمانہ میمن مسجد بھی مارکیٹ کے اوپر ہے، بہاولپور کی مشہور صادق مسجد مارکیٹ کے اوپر ہے۔
لاہور کی مشہور مسجد اسحاق یو کے سینٹر مارکیٹ کے اوپر ہے۔ فلیٹوں کے نیچے تو بیشمار ہیں۔
فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ
سائل: اور جو جگہ وقف کر دی جائے، اس کے اوپر قاری یا خادم وغیرہ کی جو رہائش بنائی جاتی ہے، اس کے بارے میں بھی وضاحت کر دیں۔
جواب: عمومی طور پر اہل علم کے فتوے آئے ہیں کہ اطراف میں یا وضوء خانے کے اوپر فیملی کی رہائش بنائی جائے، بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ جو جگہ وقف کردی جائے وہ سدرۃ المنتہیٰ تک مسجد ہی ہے، بعض علماء کہتے ہیں جو جگہ نماز کے لیے وقف کردی گئی ہے، وہ مسجد ہے، لیکن جو جگہ یا حصہ نماز کے لیے خاص ہو وہاں رہائش اختیار کی جا سکتی ہے، بہرحال یہ مختلف فیہ ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ