سوال (496)

فلموں میں جو نکاح کئے جاتے ہیں تو ان کا کیا حکم ہے ؟

جواب

فلموں میں لوگ نکاح کرتے ہیں ، طلاقیں دیتے ہیں ، یہ نکاح و طلاق واقع نہیں ہوتے ہیں ، لیکن یہ دین اسلام کے ساتھ ایک استہزاء ہے جو قطعاً جائز نہیں ہے ۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ نکاح کے لیے ولی کا ہونا ضروری ہے ۔ باقی ڈراموں میں جو ولی بنتے ہیں وہ حقیقی ولی نہیں ہوتے ہیں ، اس لیے ایسا نکاح منعقد نہیں ہوگا اور جو ولی کے بغیر لڑکا اور لڑکی خود ایجاب و قبول کرلیتے ہیں ، اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے ۔
سیدنا ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ.

ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے ۔ (سنن ابی داؤد 2085)
اس طرح طلاق کا مسئلہ ہے ، ڈراموں میں جو اس کی بیوی ہوتی ہے وہ اس کی حقیقی بیوی نہیں ہوتی ہے اگر وہ طلاق دیتا ہے کس کو دے رہا ہے وہ اس کی زوجہ ہی نہیں ہے ۔ لھذا یہ طلاق بھی واقع نہیں ہوگی ۔اس کے علاؤہ یہ بھی بات ہے کہ ڈاراموں میں لغویات ، بے حیائی ، وقت کا ضیاع ، پیسے کا ضیاع ، دین کی تباہی اور اس کے علاؤہ کئی مفاسد ہیں ، ایک خود چیز غیر شرعی ہے پھر جو کچھ اس میں واقع ہوگا وہ غیر شرعی ہوگا ، اس کی بنیاد ہی غلط ہے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

اس مسئلہ پر 90 کی دہائی میں عدالت میں پٹیسن بھی دائر ہوئی تھی ، زیادہ تفصیل معلوم نہیں لیکن مدعا یہی تھا کہ مذاق میں نکاح طلاق شریعت میں ہو جاتی ہے ، لیکن یہ ڈرامے میں ایسا کیوں کرتے ہیں ، فیصلہ ہمیشہ کی طرح فائلوں میں ہی رہ گیا ، دوسری بات جو ہے ہی ڈرامہ تو اس کا کیا کرنا ، جس کا معنی ہی جھوٹ اور دھوکہ ہے ، ویسے آج کل تو لوگ تاریخ بھی ڈراموں سے سیکھ رہے ہیں۔

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ