سوال (3330)

ایک شخص نے لڑائی میں دوسرے کو فائر مارا جو اس کے پیٹ میں لگا ہے، وہ زخمی ہوا ہے، اب کافی ٹھیک ہے۔ اب صلح کے موقع پر صلح نامہ پر لکھا گیا کہ فائر کرنے والا زخمی کے علاج کے لیے اللہ کی رضا کے لیے اتنے روپے مدد کرے گا۔ فائر کرنے والے نے اپنی آمدنی سے کچھ حصہ صدقہ کے لئے مختص کر رکھا تھا۔ تو کیا وہ اس حصہ سے اس زخمی کی صلح نامی میں لکھی گئی رقم ادا کر سکتا ہے؟

جواب

فقہاء نے اس کو “الجائفہ” لکھا ہے، ایسی چوٹ جو پیٹ کے اندر تک چلی جائے، فائر کوئی ہلکی چیز نہیں ہے، اہل علم نے اس کا ثلث دیت لکھا ہے، ٹوٹل دیت دیت کا ایک تہائی دیت لیا جائے گا، مقامی علماء سے ملاقات کرکے فتویٰ لیں، اگر اتنا زخم نہیں ہے تو اس کے ذمے جو خرچہ ڈالا گیا ہے، وہ خرچہ دے دے، باقی وہ نفلی صدقہ میں سے بھی دے سکتا ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

پیارے بھائی بات میں کچھ ابہام ہے پہلی بات یاد رکھیں کہ اللہ کی رضا کے لئے کوئی کام تب ہوتا ہے جس میں زبردستی نہ ہو یعنی وہ اپنی مرضی سے کرنے کا اختیار رکھتا ہو ورنہ تو وہ جرمانہ ہوگا پس اسکی دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔
1۔اگر صلح نامہ میں یہ لکھا ہے کہ وہ لازمی خرچ کرے گا یعنی صلح کی یہ شرط ہے تو پھر اسکا معاملہ کچھ اور ہو گا۔
2۔ اگر صلح نامہ میں اسکو اختیار ہے کہ وہ چاہے تو اللہ کی رضا کے لئے اسکے علاج پہ خرچ کرے چاہے تو نہ کرے تو پھر معاملہ کچھ اور طرح سے ہو گا۔

پہلی صورت میں تو چونکہ یہ اسکا جرمانہ ہے اور جو اسنے خیرات کے لئے رقم مختص کی ہوئی ہے وہ اس پہ لگا سکتا ہے اگر وہ اس جرمانہ کی وجہ سے خود خیرات کا مستحق ہو جاتا ہے ورنہ تو نہیں۔
دوسری صورت میں کہ اسکی مرضی ہے کہ وہ اللہ کی رضا کے لئے خڑچ کرے یا نہ کرے تو یہ خرچ اسکا جرمانہ نہیں بلکہ ویسے ہی کسی غریب کی مدد کرنا ہے تو اگر اسنے جو رقم پہلے مختص کی ہوئی ہے وہ عام ہے یعنی خاص مقصد کے لئے نہیں تو پھر وہ اس میں سے اس پہ خرچ کر سکتا ہے واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ