سوال (1478)

فتنہ کسے کہتے ہیں؟ کیا ایک شخص بھی فتنہ کہلا سکتا ہے؟ جاوید احمد غامدی صاحب کے بارے میں علمائے سلف کی کیا رائے ہے ؟ کیا انہیں دور حاضر کا فتنہ کہا جا سکتا ہے ؟ ہمیں انفرادی طور پر فتنہ لفظ کے استعمال میں کس قدر احتیاط کرنی چاہیے؟

جواب

لفظ فتنہ کا استعمال فرد یا جماعت دونوں کے لیے جائز ہے ۔

“اِنَّمَاۤ اَمۡوَالُكُمۡ وَاَوۡلَادُكُم فتنة” [سورة الانفال: 28]

اس آیت کی رو سے اولاد ایک بھی ہو سکتی ہے ، ایک سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے ۔
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو ایک موقعے پر کہا کہ “أفتان أنت يا معاذ!” [سنن ابي داؤد : 790] لہذا فتنے کا لفظ فرد یا جماعت دونوں کے لیے استعمال ہو سکتا ہے ۔
عقائد و اعمال کے بگاڑ اور نبوی نہج پر نہ چلنے کو فتنے سے تعبیر کیا گیا ہے ، جاوید احمد غامدی نے جہاں احادیث کا انکار کیا ہے ، وہاں نئی نئی تاویلات اور تشریحات بھی پیش کی ہیں ، وہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ پیدا کیا ہے کہ مسلمات کا انکار کیا ہے اور تعریفات بھی بدل دی ہیں ، مثلاً وہ سنت کا دعویٰ کرتا ہے ، ایک جگہ کھل کے لکھا ہے کہ سنت تو قرآن سے بھی پہلے ہے ، جب وضاحت طلب کی جائے کہ سنت کیا ہے ؟ تو پھر وہ سنت کی تعریف جو ہمارے ہاں ہے ، وہ تعریف نہیں کرتا ہے بلکہ وہ سنت دین ابراہیم کی روایات کو کہتے ہیں ، یقیناً یہ شخص دور حاضر کا عقائد ، اعمال اور تشریحات کے باب میں اور مسلمات کو بگاڑنے کے حوالے سے فتنے کا شکار ہے ، لوگوں کو فتنے میں ڈال رہا ہے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

لغوی اعتبار سے فتنہ کا مادہ فَتْن ہے، جس کے لغوی معنی ہیں سونے کو آگ میں تپاکر کھرا کھوٹا معلوم کرنا۔ [راغب اصفہانی]
فتنہ کے معنی ہیں امتحان اور آزمائش کے بھی ہیں۔ گویا کہ آزمائش کے لمحات سے کامیابی سے گزر کر ایک مسلمان کندن بن جاتا ہے۔ اور غلط آدمی میل کچیل کی طرح الگ ہو جاتا ہے۔
لفظ “فتنہ” لکھنے پڑھنے کو تو ایک چھوٹا سا لفظ ہے مگر اپنے اثرات، گہرائی اور مفہوم کے اعتبار سے بہت گہرا ہے۔ فتنہ انفرادی، گھر بار اور اہل و عیال میں بھی ہو سکتا ہے، اجتماعی ملک اور روئے زمین پر بھی۔
فنتہ بندے کے اعتبار سے اور فتنے کے اعتبار سے ہر طرح کا ہو سکتا ہے، قرآن مجید میں فتنے کا مفہوم کئی معانی میں استعمال ہوا ہے اور بیوی، اولاد اور مال کو بھی فتنہ قرار دیا گیا ہے۔
عام طور پر فتنہ بہت سے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ اسے آپ سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سیدنا عمر نے کہا: فتنے کی بابت تم میں سے حدیثِ نبوی کسی کو یاد ہے؟ میں نے کہا: مجھے یاد ہے۔ سیدنا عمر نے پوچھا: كیسے؟ حذیفہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: آدمی کو پیش آنے والا فتنہ اس کے گھر میں بھی ہو سکتا ہے، اس کی اولاد میں بھی اور اس کے ہمسائے کی طرف سے بھی ہو سکتا ہے اور نماز، صدقہ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور ایسے کام فتنے کی اس شکل کا کفارہ بن جاتے ہیں۔ سیدنا عمر فرمانے لگے: میری مراد یہ نہیں۔ میں تو اس فتنے کی بات کر رہا ہوں جو سمندر کی موجوں کی طرح اُٹھے گا۔ سیدنا حذیفہ کہنے لگے: امیر المومنین! آپ کو اس کی فکر کی ضرورت نہیں۔ آپ کے اور اس فتنے کے درمیان ایک بند دروازہ ہے۔ سیدنا عمر پوچھنے لگے: وہ دروازہ توڑا جائے گا یا کھولا جائے گا؟ میں نے کہا: نہیں بلکہ توڑا جائے گا۔ سیدنا عمر نے کہا: جب اسے توڑ دیا گیا تو وہ تو پھر بند نہیں ہو گا۔” [بخاری : 7096]
دروازہ ٹوٹنے سے مراد سیدنا عمر کی شہادت تھی اور اُنہیں اس کا بخوبی اندازہ تھا۔ سیدنا عمر کی شہادت کے بعد مسلمانوں میں جو فتنہ کھڑا ہوا، اس کا دائرہ چند ایک لوگوں تک محدود نہ تھا بلکہ اس سے خلافتِ اسلامیہ پر لرزہ طاری ہو گیا اور آج تک اُمت اس فتنے کا شکار ہے اور نہ جانے کب تک رہے گی۔ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے كہ فتنہ بہت سے لوگوں كو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور اس كے اثرات ایک عرصے تک باقی رہتے ہیں۔
بعینہ ہی غامدی یا اس قبیل کے دوسرے لوگ بظاہر تو افراد ہیں لیکن ان کی شر انگیزیوں سے متاثر ہونے والے کثیر تعداد میں ہیں ۔
سلف کے منہج کو مسخ کر دینا معمولی فتنہ نہیں ہے، یہی کچھ اس شخص نے کیا ہے۔

فضیلۃ العالم عبد الرحیم حفظہ اللہ