سوال (4421)

دوران جنگ ایسا موقع آتا ہے کہ فوجی جوان جسم پر بم باندھ کر دشمن کی صفوں میں یا ٹینکوں میں گھس جاتے ہیں تباہ کردیتے ہیں۔
یہ خودکشی کے مترادف ہوگا؟ کیا ایسا جائز ہے۔

جواب

ایک فدائی مشن ہوتا ہے، اس میں ایک یا دو پرسنٹ بچنے کا خدشہ ہوتا ہے، یعنی خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے، ساتھ ساتھ بچنے کا چانس بھی ہوتا ہے، یہ تو جائز ہے، باقی یہ ہے کہ اپنے جسم کے ساتھ بم باندھ کر لیٹ جانا، یہ بظاہر خودکشی کے مترادف ہے، کیونکہ سامنے والے کا نقصان ہو یا نہ ہو، اپنا نقصان تو کر رہا ہے، اس سے علماء مطلق طور پر منع کرتے ہیں، باقی جہاں یہ مسئلہ ہو، وہاں کے مقامی علماء سے پوچھ لیا جائے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

ابھی پاک فضائیہ کے پائلٹ بھی ڈیتھ فارم پر دستخط کر کے اڑے تھے، باقی حالات کے مطابق جنگی حکمت عملی اپنانے میں حرج نہیں ہے۔ ان شاء اللہ

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

پیارے بھائی اس کو سمجھنے سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ جیسے بدعت دو قسم کی ہوتی ہے ایک لغوی دوسری اصطلاحی۔ اب ہم جانتے ہیں کہ بدعت کو گمراہی کہا گیا ہے مگر ہر لغوی بدعت ممنوع نہیں ہوتی بلکہ اصطلاحی ممنوع ہوتی ہے جیسا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے بدعت کو اچھا کہا تھا۔
بالکل اسی طرح خود کشی سے بظاہر مراد تو اپنے آپ کو موت کے منہ میں ڈالنا ہوتا ہے لیکن یہ ایک لغوی تعریف ہے پس اسکی بھی دو قسمیں ہیں ایک لغوی اور دوسری اصطلاحی۔ اورشریعت میں لغوی خودکشی ممنوع نہیں بلکہ اصطلاحی ممنوع ہے۔
اب لغوی خود کشی میں تو سب خود کشیاں آئیں گی مگر اصطلاحی خود کشی میں وہ آتی ہے جو اپنی زندگی سے تنگ ہو کر یا تکلیف وغیرہ سے تنگ ہو کر یا کسی اور وجہ سے اپنے آپ کو مارا جائے جس میں دین کی دعوت یا دین کی فتح وغیرہ کا تعلق نہ ہو ورنہ جس خود کشی میں دین کی دعوت یا فتح کا تعلق ہو اس کو اصطلاحی خود کشی نہیں کہا جا سکتا جیسا کہ مسلم کی روایت میں راہب کا واقعہ آتا ہے جو دعوت کے پھیلاو کے لئے اپنے آپ کو مارنے کا طریقہ بتاتا ہے کہ سب لوگوں کو اکٹھا کر کے بسمہ اللہ پڑھ کر مجھے مارو گے تو میں مر جاوں گا وغیرہ۔
پس کوئی دین کو بچانے کے لئے یا کسی ایسے ملک کو بچانے کے لئے جس میں دوسروں سے بہتر دین پایا جائے جان کی بازی لگاتا ہے تو وہ خود کشی نہیں ہوتی۔ واللہ اعلم

فضیلۃ الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ