سوال       (138)

اگر ہم ڈالر خرید کر رکھ لیں کہ جب ریٹ بڑے گا تو ہم اپنے ملک کی کرنسی میں چینج کروا لیں گے ۔ ایسا کاروبار کرنا جائز ہے؟

بالکل اسی طرح کی ایک آنلائن کمپنی ہے۔ (Forex Trading) جس میں ہم آنلائن اپنے پیسے انویسٹ کرکے کسی اور ملک کی کرنسی خرید لیتے ہیں ، پھر جب اسکا ریٹ بڑھتا ہے تو ہم اپنے موبائل سے ہی بیٹھے بیچ دیتے ہیں ، تو بعض اوقات ریٹ گر جانے سے ہمیں نقصان بھی ہوتا اور بعض اوقات  نفع بھی ہوتا ہے  یہ سارا سسٹم اس کمپنی کے تحت ہی ہوتا ہے ، ایسا کاروبار کرنا جائز ہے؟

جواب

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں سونا اور چاندی بطور کرنسی استعمال ہوتے تھے ، لہذا دونوں کی جنس الگ ہے ، ان دنوں کے تبادلے کے وقت کمی زیادتی جائز ہے ۔ بشرطیکہ ادھار نہ ہو ،  اسی طرح ہماری کرنسی جو روپیہ ہے اس کو کسی اور ملک کی کرنسی کے ساتھ ، کمی زیادتی کے ساتھ لین دین کرسکتے ہیں ۔ اس طرح آپ اپنی کرنسی روپیہ کے عوض ڈالر خرید سکتے ہیں ، اس کے بعد ان ڈالرز کو آپ بھلے رکھ لیں ، جب ڈالر کی قیمت بڑھے تو اس کو اپنی کرنسی کے عوض بیچ بھی سکتے ہیں ، اس میں ادھار نہ ہو تو علماء نے اجازت دی ہے ۔

باقی ایک ہی کرنسی کو کمی زیادتی کے ساتھ بیچنا جائز نہیں ہے ، جس طرح عیدین  اور شادی کے موقعے پر نئے نوٹ کا معاملہ آتا ہے ۔ اس صورت میں ناجائز ہے اس میں بڑھوتری سود کے زمرے میں آئے گی ۔

باقی رہا دوسرا سوال کہ وہ (فوریکس ٹریڈنگ) کی طرح ہے ، ہمارا جو اس میں بروکر ہوتا ہے ،  وہ ساری ڈیلنگ کرتا ہے ، ہم پیسے جمع کرواتے ہیں ، ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یہ چیز خرید لی جائے گی ریٹ بڑھے گا بیچ دی جائے گی ، یہ بہر حال صحیح نہیں ہے ، اس حوالے سے کچھ وضاحت مشائخ فرما چکے ہیں ، مزید محدث کی ویب سائیٹ میں اس کو دیکھا جا سکتا ہے ۔ لیکن خلاصہ یہ ہے کہ یہ وہ طریقہ ہے کہ جس میں چیز آپ کے ہاتھ میں نہیں آ رہی ہوتی ہے بلکہ باہر باہر سے خریدی جا رہی ہے اور  بیچ دی جا رہی  ہے ، یہ ایک مشکوک طریقہ ہے قمار اور جوئے  کی ایک جدید شکل ہوسکتی ہے ۔ لہذا اس سے پرہیز کرنا چاہیے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ