سوال          (87)

سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“إِذَا مَاتَ الإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةِ أَشْيَاءَ مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ.” [سنن ابي داؤد : 2880]

’’جب انسان مرجاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے سوائے تین چیزوں کے ۔ ایک صدقہ جاریہ ، دوسرا علم جس سے لوگوں کو فائدہ پہنچے ، تیسرا صالح اولاد جو اس کے لیے دعائیں کرتی رہے‘‘ ۔

یہ تمام اعمال اس شخص سے وابستہ ہیں ،  سوال یہ ہے کہ کیا دوسرے رشتے دار بھی اس فوت شدہ شخص کی طرف سے صدقہ کر سکتے ہیں جیسے کوئی اپنے دادا یا خالہ وغیرہ کے لیے صدقہ کرے اور شیخ صاحب یہ بھی بتائیں کہ جس طرح اولاد والدین کی طرف سے اعمال کر سکتی ہے اسی طرح والدین بھی فوت شدہ اولاد کی طرف سے اعمال کرسکتے ہیں؟

جواب

اس حدیث میں ہے کہ تین چیزوں کے علاؤہ سب کچھ منقطع ہوجاتا ہے  ، تین چیزوں میں سے “وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ”  بھی ہے کہ نیک بچہ دعا کرتا ہے ، اس میں بچے کے تمام تر اعمال آجاتے ہیں ، بچہ اسپیشلی ان کی طرف سے بھی کرسکتا ہے ، بچہ اپنے لیے اعمال  کرے تو والدین کو اجر ملتا ہے ۔

اگر دوسرے رشتے دار ہیں تو ان کی گنجائش موجود ہے ، کیونکہ وہ ہمارے بڑے ہوتے ہیں ہم ان کے چھوٹے ہوتے ہیں پھر بچوں کی طرح معاملہ ہوجاتا ہے ۔جیسے میری خالہ ہوں میں ان کا بچہ ہی ہونگا ، سب کے ساتھ یہ طرز عمل ہے ہم ان کے بچے ہی ہوتے ہیں ، ان کے بھتیجے ، بھانجے ، نواسے اور پوتیاں ہیں ۔ یہ صدقہ جاریہ کے لیے کچھ نیکیاں کرسکتے ہیں ۔       جنرلی قائدہ یہ ہے کہ اگر بالکل ہی غیر ہیں ، لیکن اچھے لوگ تھے ، پھر ان کے لیے جو صورتیں ہیں کہ استغفارِ کرے ۔  استغفار بندہ کسی کے لیے بھی کرسکتا ہے شرط یہ ہے کہ  موحد ہو ، بد عقیدہ اور مشرک نہ ہو ۔ اس کے لیے قبرستان بھی جاکے کرسکتے ہیں اور ویسے کرسکتے ہیں ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔  قرآن نے یہ دعا سیکھائی ہے ۔

“رَبَّنَا اغۡفِرۡ لَـنَا وَلِاِخۡوَانِنَا الَّذِيۡنَ سَبَقُوۡنَا بِالۡاِيۡمَانِ وَلَا تَجۡعَلۡ فِىۡ قُلُوۡبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوۡفٌ رَّحِيۡمٌ” [سورة الحشر : 10]

’’اے ہمارے رب ! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جنہوں نے ایمان لانے میں ہم سے پہل کی اور ہمارے دلوں میں ان لوگوں کے لیے کوئی کینہ نہ رکھ جو ایمان لائے، اے ہمارے رب ! یقینا تو بےحد شفقت کرنے والا، نہایت رحم والا ہے‘‘۔

ایک جنرلی بات یہ بھی ہے کہ حج و عمرہ بھی کسی کی طرف سے کیا جا سکتا ہے ، بشرطیکہ جو کر رہا ہے وہ اپنا ایک دفعہ پہلے کرچکا ہو ۔ اس طرح میت کے اوپر قرضہ ہے ان کے بچوں میں استطاعت نہیں ہے ، تو اس صورت قرضہ بھی اتارا جا سکتا ہے ۔

سوال کا دوسرا حصہ یہ تھا کیا جس طرح اولاد والدین کی طرف سے اعمال کر سکتی ہے اسی طرح والدین بھی فوت شدہ اولاد کی طرف سے اعمال کرسکتے ہیں؟

اس میں یہ ہے کہ اولاد کی طرف سے دلائل ملتے ہیں ، اس کے برعکس بھی ہوسکتا ہے ، شوہر کا بیوی کے لیے ، بیوی کا شوہر کے لیے ، والدین کا بچوں کے لیے ، دادا کا پوتوں کے لیے ، نانا کا نواسوں کے لیے ، میں سمجھتا ہوں اتنا ممکن ہے خونی رشتوں میں اتنا تو وزن ہوتا ہے ۔ بعض اسلاف سے منقول ہے کہ وہ نفل نماز کثرت سے اور طویل پڑھتے تھے ، بیٹا پوچھتے تھے کیوں بتاتے تھے کہ آپ کے لیے پڑھتا ہوں ۔

“وکان ابوهما صالحا”

اس آیت سے اس طرح استدلال کرتے تھے میں سمجھتا ہوں اس طرح استدلال کیا جا سکتا ہے۔او ر والدین یا بڑے رشتے دار اولاد کی طرف سے خرچ کر سکتے ہیں۔و اللہ اعلم

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ