سوال (2212)

فوتگی کے تیسرے روز میت کے ورثاء کا اپنے گھر درس کا اہتمام کرنا درست ہے؟ تاکہ پڑوس میں دعوت بھی پہنچ جائے۔

جواب

دعوت پہنچانے کے لیے وقت کی قید نہیں ہے، البتہ تیسرے دن ایسا کرنا تیجا کرنے سے مشابہت ہے، جس کو لوگ قل شریف بھی کہتے ہیں۔ اس لیے گریز کرنا ہی بہتر ہے، پڑوس میں دعوت پہنچانے کے لیے فوتگی کا انتظار کرنا بھی درست نہیں ہے۔

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

احسنت و بلغت۔ اور لوگ یہ کام اھل بدعت کو خوش کرنے کے لیے بھی کرتے ہیں کہ تیجہ بھی نہ ہو اور تیجے والے خوش بھی ہو جائیں، لہذا یہ تیجے سے مشابہت کی وجہ سے اور سد ذریعہ کے اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے درست نہیں ہے، جیسا کہ شیخ محترم نے وضاحت کردی ہے۔

فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ

ہمارے ہاں یہ جو رواج بن چکا ہے کہ میت والے گھر تیسرے دن، خواتین و حضرات کے لیے دروس کا اہتمام کیا جاتا ہے یہ غیر مشروع عمل ہے، بلکہ شیخ بن باز رحمہ اللہ نے اس عمل کو بدعت قرار دیا ہے۔

“فاعتياد إقامة محاضرة في بيت الميت في اليوم الثالث، أو طعام، أو شبه ذلك، ليس من الشرع في شيء، بل هو بدعة”

میت والے گھر تیسرے دن دروس، کھانے وغیرہ کا اہتمام کرنا، دین اسلام میں سے نہیں ہے، بلکہ کہ بدعت ہے۔
واللہ اعلم بالصواب۔

فضیلۃ الباحث مقصود احمد مدنی حفظہ اللہ

ماشاء الله تبارك الرحمن المنان بارك الله فيكم جميعا وعافاكم
یہ سب صورتیں، ایام ، اوقات مواقع عہد نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم میں موجود تھے اور ان کے مقابل کوئی موانع بھی موجود نہیں تھا، اس کے باوجود مروجہ کیے جانے والے یہ کام سب سے بہتر زمانہ میں سب سے بہتر و افضل ہستیوں کی موجودگی میں نہ ہونا اس کے بدعت و ناجائز ہونے پر واضح دلیل ہے۔
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ان سب امور کی ان ایام مخصوصہ میں کسی صحابی کو تعلیم و ترغیب نہیں دی کہ آپ میت کے ایصال ثواب کے لیے یہ اور یہ عمل اور کام سر انجام دو، اس کا فائدہ میت کو ہوگا، نہ ہی تعامل صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین و سلف صالحین سے یہ امور و اعمال کرنا ثابت ہیں، نہ ہی اس طرح سے اکٹھ اور مجالس خیر القرون میں قائم کی گئیں۔
دین اسلام مکمل ہو چکا عبادات و اعمال و احکام سمیت ہر چیز کی تفصیل و ضرورت کی چیزیں بیان ہو چکی ہیں اس لیے جو چیز بطور دین، عبادت و نیکی کے قرآن وحدیث میں موجود نہیں ہے، نہ ہی اسے عبادت و نیکی کا درجہ الله تعالى رسول اكرم صلى الله عليه وسلم نے دیا ہے، نہ ہی اسے عبادت و نیکی کے ارادہ سے صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین نے سر انجام دیا تو وہ کام کوئی بھی عبادت و نیکی سمجھ کر کرے گا تو وہ بلاشبہ بدعت اور شریعت سازی قرار پائے گا الله تعالى اور رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم سے آگے بڑھنا قرار پائے گا [الحجرات: 1]

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

“ﻣﻦ ﺃﺣﺪﺙ ﻓﻲ ﺃﻣﺮﻧﺎ ﻫﺬا ﻣﺎ ﻟﻴﺲ ﻓﻴﻪ، ﻓﻬﻮ رد”
[صحيح البخارى: 2697، صحیح مسلم: 1718]

اسی حدیث کی تفسیر و تعبیر ہم دوسرے طریق سے مروی الفاظ سے کر دیتے ہیں۔

ﻋﻦ ﻋﺎﺋﺸﺔ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻬﺎ ﻗﺎﻟﺖ: ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﻣﻦ ﺃﺣﺪﺙ ﻓﻲ ﺩﻳﻨﻨﺎ ﻣﺎ ﻟﻴﺲ منه ﻓﻬﻮ رد.
[شرح السنة للبغوي: 103، صحيح، جزء من حديث لوين: 71 سنده صحيح]

تو اس صحیح سند سے مروی الفاظ نے صراحت کر دی کہ دن اسلام میں ہر وہ کام جسے عبادت و نیکی کے ارادہ سے کیا جائے اور اس کی اصل قرآن وحدیث میں موجود نہیں ہو تو وہ مردود اور باطل ہے اور کوئی بھی عمل مردود و باطل جبھی ہوتا ہے، جب اس کی اصل قرآن و حدیث میں نہ ہو اور تعامل صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین سے ثابت نہیں ہو۔
یاد رکھیں میت کے لیے صرف دو جگہ پر اکٹھ کرنا ثابت ہے۔
(1) جنازہ کے لیے
(2) قبر پر دعا کے لیے
تیسرا کوئی اکٹھ کرنا قرآن و حدیث اور تعامل سلف صالحین سے ثابت نہیں ہے۔
آج اگر اہل حدیث بھی ان مواقع اور ایام میں کوئی مجلس وعظ وغیرہ منقعد کرتا ہے تو ہم اس کی مذمت کرتے ہیں اور اعلان براءت بھی اور یہ کہ کسی کی غلطی ہمارا مسلک و منہج ہرگز نہیں ہے ہمارا مسلک و منہج صرف قرآن وحدیث ہیں اور دین اسلام کا وہ فھم و تعبیر معتبر مانتے ہیں، جس پر صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین و خیر القرون کے سلف صالحین تھے، ہاں فروعی مسائل میں اختلاف اگر کہیں سن کے ہاں بھی ہے، تو ہم اس میں سے اسے اختیار کرتے ہیں جو اقرب إلى الحق ہو۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ