سوال (5775)

ایک دوست ہیں وہ 2 بھائی اور 1 بہن ہیں۔ والدہ کی وفات کے بعد والد نے دوسری شادی کرلی اور اس طرح سے یہ سب اکٹھے رہنے لگ گئے۔
کچھ عرصے کے بعد والد کا انتقال ہوگیا لیکن والد کی خواہش کے مطابق یہ اپنی سوتیلی والدہ کے ساتھ ہی رہنے لگ گئے۔ وفات کے وقت کوئی ایسے اثاثہ جات نہیں تھے جن کی تقسیم کی جاتی۔ لیکن والد سرکاری ملازم تھے اور وہاں سے گریجویٹی اور پینشن کی رقم آنی تھی۔
پاکستان کے قانون کے مطابق ان سب مراعات پر حق بیوی کا ہے۔
بڑے بیٹے نے اپنی سوتیلی والدہ کے ساتھ ملکر ساری ڈاکومینٹیشن کی اور سارے معاملات کو اپنے ہاتھ میں ہی رکھا۔ گریجویٹی کی کل رقم 25 لاکھ تھی جس میں سے ابتدائی طور پر 13 لاکھ ملے۔ بیٹے نے دھوکہ دہی سے وہ رقم اپنے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کروالی۔
جب اس عورت کو اس بات کا علم ہوا تو گھر میں پنچایت بیٹھ گئی اور بلآخر فریقین نے اس فیصلے پر حلف دیا کے 12.5 لاکھ پر تینوں بچوں کا حق ہوگا اور 12.5 لاکھ پر اکیلی ان کی سوتیلی ماں کا۔ اور ماہانہ پینشن بھی عورت کو ہی ملے گی۔ اس کے بعد کچھ عرصہ صلح کے ساتھ رہے لیکن بعد ازاں معاملات بگڑ گئے اور وہ عورت اپنے بھائیوں کے ہاں مستقل شفٹ ہوگئی۔
اب اس لڑکے کی پریشانی یہ ہے کے کیا اس نے اس معاملے میں زیادتی کی ہے؟ اور کیا اس یہ رقم رکھنی چاہیے یا واپس کردینی چاہیے؟ اور کیا اس رقم پر وراثت والا معاملہ ہوگا یا کیا کرنا چاہیے؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
فوت شدہ شخص کے تمام اثاثے، نقدی، منقولہ و غیر منقولہ جائیداد وغیرہ سب وراثت شمار ہوتے ہیں۔ اور وراثت میں سب ورثاء کا حق مقرر ہے:
اگر بیوی زندہ ہے تو اسے آٹھواں (1/8) حصہ ملے گا (اگر اولاد بھی ہو)۔ باقی حصہ اولاد میں تقسیم ہوگا: بیٹے کو بیٹی کے مقابلے میں دوگنا ملتا ہے (یعنی بیٹے = 2 حصے، بیٹی = 1 حصہ)۔
لیکن سرکاری پنشن اور گریجویٹی کے بارے میں تفصیل ہے:
پنشن بنیادی طور پر ملازم کی زندگی کے بعد سرکار کی طرف سے بیوی/بچوں کو بطور تعاون و گزر بسر دیا جانے والا وظیفہ ہے، یہ “ترکہ” (وراثت) میں شامل نہیں ہوتا۔ اسی طرح گریجویٹی بھی بعض علماء کے نزدیک “ملازم کی ملکیت” نہیں ہوتی بلکہ “سروس کے بعد ادارے کی طرف سے تعاون” ہوتی ہے، اس لیے یہ ادارہ جس کو دے، اسی کا حق ہے۔
لہٰذا اگر اس قول کو بنیاد بنایا جائے تو یہاں پنشن کا اصل حق قانون کے مطابق یہ بیوی ہی کا ذاتی حق ہے، اس پر دیگر ورثاء کا کوئی حصہ نہیں۔
البتہ گریجویٹی کے بارے میں اختلاف ہے: بعض علما کہتے ہیں کہ یہ ترکہ ہے اور ورثاء میں تقسیم ہوگی، اور بعض کہتے ہیں کہ یہ بھی پنشن کی طرح ادارے کا عطیہ ہے، لہٰذا جس کو ادارہ دے، اسی کا حق ہے۔
پاکستان میں سرکاری ملازم کی پینشن صرف بیوہ کو ملتی ہے (اگر بیوی نہ ہو تو بعض کیسز میں بیٹی کو بھی مل سکتی ہے، مگر بیٹے کو نہیں ملتی)۔ گریجویٹی کی بھی نامزدگی کے حساب سے ادائیگی ہوتی ہے، اور ادارہ عام طور پر بیوہ کو دیتا ہے۔
یہ چند بنیادی باتیں سمجھ لیں پھر آپ کے سوال کے مطابق بیٹے نے جو 13 لاکھ روپے دھوکہ دہی سے اپنے اکاؤنٹ میں ڈلوائے، وہ اس کا ذاتی حق نہیں تھا۔ یہ رقم ادارے نے بیوہ کے نام جاری کی تھی، لہٰذا وہ رقم بیوہ ہی کی ملکیت شمار ہوگی۔ بعد میں جو پنچایت کے ذریعے 12.5 / 12.5 لاکھ پر تقسیم کا معاہدہ ہوا، وہ شرعی اعتبار سے درست نہیں ہے، کیونکہ اصل رقم تو ادارے کے قانون کے مطابق بیوہ کی تھی۔لہٰذا بیٹے کے پاس جو رقم بیوہ کی امانت تھی، وہ واپس کرنا واجب ہے۔اگر بیوہ خوش دلی سے کچھ بچوں کو دے دے تو وہ ان کے لیے حلال ہوگا۔ورنہ زبردستی لینا یا دھوکہ دے کر رکھنا حرام اور ناجائز ہے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ