سوال (6049)

“عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِن رَّسُولٍ” (سورہ الجن، آیت 26-27)

ترجمہ: وہ غیب کو جاننے والا، اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا، سوائے اُس رسول کے جسے وہ پسند کرے۔

وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَـٰكِنَّ اللَّهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ،

اللہ ایسا نہیں کہ تمہیں (عام لوگوں کو) غیب پر مطلع کر دے، بلکہ وہ اپنے رسولوں میں سے جسے چاہے منتخب کر لیتا ہے (اور اسے غیب کی خبریں دیتا ہے)۔

جواب

غیب اللہ کی خاص صفت ہے جو اللہ نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو نہیں دی۔

قُلْ لَّا يَعۡلَمُ مَنۡ فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ الۡغَيۡبَ اِلَّا اللّٰهُ‌ؕ وَمَا يَشۡعُرُوۡنَ اَيَّانَ يُبۡعَثُوۡنَ[النمل: 65]

ترجمہ: کہہ دیجئے کہ آسمان والوں میں سے زمین والوں میں سے سوائے اللہ کے کوئی غیب نہیں جانتا انھیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ کب اٹھ کھڑے کئے جائیں گے۔
1۔ اللہ کے علاؤہ کوئی بھی نبی ،ولی غیب نہیں جانتا۔
2۔ جہاں تک تعلق ہے سوال میں مذکور آیت کا تو اس سے مراد ہے کہ کوئی بھی نبی بذاتہ علم غیب نہیں جانتا لیکن اللہ تعالیٰ نبیوں کو بعض غیب کی خبریں وحی کے ذریعہ ظاہر کردیتا ہے۔
مثلا دجال کا خروج ، عیسی علیہ السلام کا قرب قیامت آنا، پہلے انبیاء کرام علیھم السلام اور ان کی قوموں کے واقعات یہ سب غیب کی خبریں ہیں جو بذریعہ وحی اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دی

ذٰلِكَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ الۡغَيۡبِ نُوۡحِيۡهِ اِلَيۡكَ‌ۚ وَمَا كُنۡتَ لَدَيۡهِمۡ (يوسف: 102)

یہ غیب کی خبروں میں سے جس کی *ہم آپ کی طرف وحی کر رہے ہیں۔ آپ ان کے پاس نہ تھے۔

قُلْ لَّاۤ اَقُوۡلُ لَـكُمۡ عِنۡدِىۡ خَزَآئِنُ اللّٰهِ وَلَاۤ اَعۡلَمُ الۡغَيۡبَ [الأنعام: 50]

آپ کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں
لہذا، اس آیت سے مراد نبیوں کا عالم الغیب ہونا نہیں،بلکہ اللہ تعالیٰ کا انبیاء کو بعض غیب کی خبریں بذریعہ وحی دینا ہے۔ اور وحی آنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ انبیاء کرام علیھم السلام خود غیب نہیں جانتے اگر غیب جانتے ہوتے تو وحی کی تو پھر ضرورت ہی نہ ہوتی۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ الباحث ابو زرعہ احمد بن احتشام حفظہ اللہ

غیب کے موضوع پر اگر کوئی مطالعہ کرنا چاہے تو تفسیر معارف القران میں غالبا سورۃ الانعام کی آیت وعنده مفاتح الغيب لا يعلمها الا هو کے ضمن میں اس موضوع پرمفتی محمد شفیع مرحوم نے جو کہ والد تھے مفتی تقی عثمانی صاحب کے، انہوں نے بہترین تفصیلی گفتگو کی ہے بہتر ہوگا کہ علماء ہی اس کا مطالعہ کریں۔

فضیلۃ الشیخ محمد نعیم راشد حفظہ اللہ

رب العالمین نے اپنے علاوہ کسی اور کے لئے عالم الغیب کا کلمہ نہیں بولا ہے یہ رب العالمین کی خاص صفت ہے جس میں کوئی اور شریک نہیں ہو سکتا ہے اور جو کسی اور کو عالم الغیب مانے گا وہ اس خاص صفت میں اسے رب العالمین کے برابر قرار دے رہا ہے جو صریح شرک فی الصفات، شرک اکبر ہے۔
یاد رہے عالم الغیب، علم غیب اور اخبار غیب میں فرق ہے عالم الغیب صرف الله سبحانه وتعالى ہی ہیں اور اخبار غیب وحی کے ذریعے انبیاء کرام پر نازل ہوتی رہی ہیں قرآن کریم میں اس بارے میں اس مسئلہ کو کھول،کھول کر بیان کیا گیا ہے۔
کلی طور پر بغیر کسی سبب وذریعہ کے غیب کا علم صرف الله تعالی کے پاس ہے!
ارشاد باری تعالی ہے۔

وَلِلَّهِ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ ۚ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ، (ھود:(123)

اور الله ہی کے پاس آسمانوں اور زمین کا غیب ہے اور سب کے سب کام اسی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں۔ سو آپ الله کی عبادت کریں اور الله پر بھروسا کریں اور آپ کے رب اس سے ہرگز غافل نہیں جو تم کرتے ہو۔
تفسیر یحیی بن سلام میں یوں توضیح ہے۔
ﻳﻌﻠﻢ ﻏﻴﺐ اﻟﺴﻤﻮاﺕ ﻭﻳﻌﻠﻢ ﻏﻴﺐ اﻷﺭﺽ، تفسیر یحیی بن سلام:1/ 78
اس آیت کی تفسیر میں آئمہ اہل سنت کے عظیم امام محمد بن جریر الطبری رحمة الله عليه کہتے ہیں:

ﻳﻘﻮﻝ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﺫﻛﺮﻩ ﻟﻨﺒﻴﻪ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﻭﻟﻠﻪ، ﻳﺎ ﻣﺤﻤﺪ، ﻣﻠﻚ ﻛﻞ ﻣﺎ ﻏﺎﺏ ﻋﻨﻚ ﻓﻲ اﻟﺴﻤﻮاﺕ ﻭاﻷﺭﺽ ﻓﻠﻢ ﺗﻄﻠﻊ ﻭﻟﻢ ﺗﻌﻠﻤﻪ، ﻭﻟﻢ ﺗﻌﻠﻤﻪ، ﻛﻞ ﺫﻟﻚ ﺑﻴﺪﻩ ﻭﺑﻌﻠﻤﻪ، ﻻ ﻳﺨﻔﻰ ﻋﻠﻴﻪ ﻣﻨﻪ ﺷﻲء، ﻭﻫﻮ ﻋﺎﻟﻢ ﺑﻤﺎ ﻳﻌﻤﻠﻪ ﻣﺸﺮﻛﻮ ﻗﻮﻣﻚ،ﻭﻣﺎ ﺇﻟﻴﻪ ﻣﺼﻴﺮ ﺃﻣﺮﻫﻢ، ﻣﻦ ﺇﻗﺎﻣﺔ ﻋﻠﻰ اﻟﺸﺮﻙ، ﺃﻭ ﺇﻗﻼﻉ ﻋﻨﻪ ﻭﺗﻮﺑﺔ۔۔۔ تفسیر الطبری: 15/ 545

امام ابو اسحاق الزجاج رحمة الله عليه ﻭﻟﻠﻪ ﻏﻴﺐ اﻟﺴﻤﺎﻭاﺕ ﻭاﻷﺭﺽ کی تفسیر میں کہتے ہیں:

ﻭﻣﻌﻨﺎﻩ: ﻭﻟﻠﻪ ﻋﻠﻢ ﻏﻴﺐ اﻟﺴﻤﺎﻭاﺕ ﻭاﻷﺭض، ﻣﻌﺎﻧﻲ اﻟﻘﺮﺁﻥ ﻭﺇﻋﺮاﺑﻪ::3/ 214

تفسير القرآن العزيز یوں توضیح ہے۔

ﺃﻱ: ﻻ ﻳﻌﻠﻤﻪ ﺇﻻ ﻫﻮ، تفسير القرآن العزيز لابن أبي زمنيين:2/ 314

امام السمعانی نے کہا:

ﺃﻱ: ﻭﻟﻠﻪ ﻋﻠﻢ ﻣﺎ ﻏﺎﺏ ﻓﻲ اﻟﺴﻤﻮاﺕ ﻭاﻷﺭﺽ، تفسیر السمعانی :2/ 469

حافظ ابن کثیر نے کہا:

ﻳﺨﺒﺮ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﺃﻧﻪ ﻋﺎﻟﻢ ﻏﻴﺐ اﻟﺴﻤﻮاﺕ ﻭاﻷﺭﺽ، تفسیر ابن کثیر: 4/ 364

ارشاد باری تعالی ہے:

قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ ۚ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ

(پیارے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم) فرما دیں الله کے سوا آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہے غیب نہیں جانتا اور وہ شعور نہیں رکھتے کہ کب اٹھائے جائیں گے۔ النمل:(65)
اس آیت کی تفسیر میں امام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں:

ﻣﻦ ﺯﻋﻢ ﺃﻧﻪ ﻳﺨﺒﺮ اﻟﻨﺎﺱ ﺑﻤﺎ ﻳﻜﻮﻥ ﻓﻲ ﻏﺪ، ﻓﻘﺪ ﺃﻋﻈﻢ ﻋﻠﻰ اﻟﻠﻪ اﻟﻔﺮﻳﺔ، ﻭاﻟﻠﻪ ﻳﻘﻮﻝ: (ﻻ ﻳﻌﻠﻢ ﻣﻦ ﻓﻲ اﻟﺴﻤﺎﻭاﺕ ﻭاﻷﺭﺽ اﻟﻐﻴﺐ) تفسیر الطبری :19/ 486 ،تفسیر ابن أبی حاتم الرازی: (16535) صحيح

اسی آیت کی تفسیر میں ایک طویل متن سے اثر موجود ہے امام قتادہ بن دعامہ سے اسے پڑھنا چاہیے ہے۔
امام ابو اسحاق الزجاج رحمة الله عليه ( المتوفی:311 ھ) کہتے ہیں:

اﻟﻤﻌﻨﻰ ﻻ ﻳﻌﻠﻢ ﺃﺣﺪ اﻟﻐﻴﺐ ﺇﻻ اﻟﻠﻪ، ﺃﻱ ﻻ يعلم اﻟﻐﻴﺐ ﺇﻻ اﻟﻠﻪ، ﻭﻣﻦ ﻧﺼﺐ ﻓﻌﻠﻰ
ﻣﻌﻨﻰ ﻻ ﻳﻌﻠﻢ ﺃﺣﺪ اﻟﻐﻴﺐ ﺇﻻ اﻟﻠﻪ، ﻋﻠﻰ ﻣﻌﻨﻰ اﺳﺘﺜﻨﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﺰ ﻭﺟﻞ.
ﻓﺈﻧﻪ ﻳﻌﻠﻢ اﻟﻐﻴب، ﻣﻌﺎﻧﻲ اﻟﻘﺮﺁﻥ ﻭﺇﻋﺮاﺑﻪ: 4/ 127

اس آیت کی تفسیر میں مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسف رحمة الله عليه لکھتے ہیں:
یعنی جس طرح مذکورہ معاملات میں الله تعالیٰ متفرد ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی طرح غیب کے علم میں بھی وہ متفرد ہے۔ اس کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں۔ نبیوں اور رسولوں کو بھی اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنا الله تعالی وحی والہام کے ذریعے سے انہیں بتلا دیتا ہے اور جو علم کسی بتلانے سے حاصل ہو، اس کے عالم کو عالم الغیب نہیں کہا جاتا۔ عالم الغیب تو وہ ہے جو بغیر کسی واسطے اور ذریعے کے ذاتی طور پر ہر چیز کا علم رکھے، ہر حقیقت سے باخبر ہو اور مخفی سے مخفی چیز بھی اس کے دائرہ علم سے باہر نہ ہو۔ یہ صفت صرف اور صرف الله کی ہے اس لیے صرف وہی عالم الغیب ہے۔ اس کے سوا کائنات میں کوئی عالم الغیب نہیں۔ سیدہ عائشہ (رضی الله عنها) فرماتی ہیں جو شخص یہ گمان رکھتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم آئندہ کل کو پیش آنے والے حالات کا علم رکھتے ہیں، اس نے الله پر بہت بڑا بہتان باندھا اس لیے وہ تو فرما رہا ہے کہ آسمان و زمین میں غیب کا علم صرف الله کو ہے۔ (صحيح بخاری نمبر 48 55، صحيح مسلم نمبر 287 الترمذی نمبر3068)
قرآن کریم کا تیسرا مقام:
((علم غیب باری تعالی کی خاص صفت ہے اور مخلوق میں سے کسی ایک کو بھی غیبی امور کا علم نہیں ہے))

“وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۚ وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ”

اور الله تعالى کے پاس غیب کی چابیاں ہیں، انھیں الله کے سوا کوئی نہیں جانتا اور وہ جانتے ہے جو کچھ خشکی اور سمندر میں ہے اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وہ اسے جانتے ہیں اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ نہیں اور نہ کوئی تر ہے اور نہ خشک مگر وہ ایک واضح کتاب میں ہے۔ الانعام:(59)
قرآن کریم کا چوتھا مقام:

“وَسَتُرَدُّونَ إِلَىٰ عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ”

اور عنقریب تم ہر پوشیدہ اور ظاہر بات کو جاننے والے کی طرف لوٹائے جاؤ گے، تو وہ تمھیں بتائے گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔
التوبہ:(105) اور دیکھیے (94) نمبر آیت
قرآن کریم کا پانچواں مقام:
(سینوں میں چھپی باتوں اور زمین وآسمان میں موجود ہر چیز صرف الله تعالی کےکمال علم میں ہے)

قُلْ إِن تُخْفُوا مَا فِي صُدُورِكُمْ أَوْ تُبْدُوهُ يَعْلَمْهُ اللَّهُ ۗ وَيَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ،

کہہ دیں اگر تم اسے چھپاؤ جو تمھارے سینوں میں ہے، یا اسے ظاہر کرو الله اسے جان لیں گے اور وہ جانتے ہیں جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اور الله ہر چیز پر پوری طرح قادر ہیں۔ (آل عمران:(29)
((تمام انبیاء ورسل کی عزت وعظمت وشان اس عقیدہ میں محفوظ ہے کہ عالم الغیب صرف الله تعالى کی ذات پاک ہیں))
قرآن وحدیث سے چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
(1) آدم علیہ السلام کا اس درخت کا پھل چکھنا یا کھانا جس سے منع کیا گیا تھا (البقرہ وغیرہ)
سیدنا یعقوب علیہ السلام کا سیدنا یوسف علیہ السلام کی جدائی میں رونا کہ بینائی تک چلی گئی (سورہ یوسف)
سیدنا ابراہیم واسماعیل عليهما السلام کا خواب اور ذبح کا واقعہ (القرآن)
سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا مکا مارنا اور قتل ہونا (القرآن)
((موسی علیہ السلام کا دل میں خوف پانا اور رب العالمین کا فرمانا لا تخف))
((سیدنا یونس علیہ السلام کا مچھلی کے پیٹ میں جانا جسے قرآن مجید میں کرب عظیم کہا گیا ہے))
یہ تمام تفصیل قرآن کریم میں ملاحظہ کریں۔
((نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اور علم غیب کا مسئلہ))

ذَٰلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ ۚ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلَامَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يَخْتَصِمُونَ، آل عمران: (44)

مفسر قرآن حافظ عبد السلام بھٹوی رحمه الله تعالى اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
اس آیت سے پانچ مسئلے واضح طور پر ثابت ہوئے:

(1)پہلا یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیب نہیں جانتے تھے، ورنہ انھیں غیب کی یہ خبریں وحی کرنے کی ضرورت نہ تھی۔
(2)دوسرا یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ حاضر و ناظر نہیں ہیں، ورنہ اللہ تعالیٰ یہ نہ فرماتا کہ تو اس وقت ان کے پاس موجود نہ تھا۔
(3)تیسرا یہ کہ اولیاء اور دوسرے انبیاء بھی غیب دان نہیں، ورنہ بیت المقدس کے خدام اور وقت کے پیغمبر زکریا علیہ السلام کو قرعہ ڈالنے کی ضرورت نہ تھی۔
(4)چوتھا یہ کہ جب چیز ایک ہو اور اس کے حق دار کئی ہوں تو اس وقت قرعہ کے ذریعے سے فیصلہ شریعت کا فیصلہ ہے۔
(5)پانچواں یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو اس واقعہ کے وقت نہ موجود تھے، نہ اسے جانتے تھے، آپ کا وحی الٰہی سے اس واقعہ کو بیان کرنا آپ کے رسول برحق ہونے کی دلیل ہے۔
تفسیر القرآن الکریم، تفسیر سورۃ آل عمران:(44)
((اخبار غیب کا بیان کیا جانا وحی الٰہی کے زریعے ))

“تِلْكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ ۖ مَا كُنتَ تَعْلَمُهَا أَنتَ وَلَا قَوْمُكَ مِن قَبْلِ هَٰذَا ۖ فَاصْبِرْ ۖ إِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ”

یہ غیب کی خبروں سے ہے جنھیں ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں، اس سے پہلے نہ آپ انھیں جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم، پس صبر کریں، بے شک اچھا انجام پرہیزگار لوگوں کے لیے ہے۔ (ھود:(49)

“قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ ۚ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ” الانعام:(50)
“قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ” الاعراف:(188)

(1) 70 قرا صحابہ کرام کی شہادت کا واقعہ( صحیح البخاری)
(2) (زہر آلود بکری کا واقعہ)
(3) (واقعہ افک یعنی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا پرمنافقین کا بہتان) صحیح البخاری وغیرہ
(4) (منافقوں کی منافقت کا وحی الٰہی کے ذریعے ظاہر ہونا)
(تین صحابہ کی توبہ کا (50 ) دن تک معاملہ معلق رہنا ) صحیح البخاری
یہ چند ایک تصریحات وتبویبات پیش کی ہیں جس سے یہ مسئلہ روز روشن کی طرح واضح ہو چکا ہے کہ عالم الغیب صرف الله تعالى کی خاص صفت ہے جس میں مخلوق سے کوئی بھی ذرہ برابر شریک نہیں ہے اور جو اس کے برعکس عقیدہ رکھتا ہے اس کا عقیدہ غلط وباطل اور قرآن وحدیث کی واضح نصوص کے خلاف ہے اور اجماع صحابہ وسلف صالحین کے بھی خلاف ہے کیونکہ عصر حاضر کے اہل بدعت کی طرح اس خاص صفت میں صحابہ کرام وسلف صالحین کے درمیان کو اختلاف نہیں تھا۔
ائمہ محدثین کے ہاں جتنی بھی عقیدہ کی کتب تھیں اور آج تک موجود ہیں ان میں بھی اہل بدعت کی طرح اس مسئلہ پر کوئی غلط نظریہ و عقیدہ موجود نہیں ہے۔
جس نے حق دیکھنا ہے وہ صحیح البخاری کی کتاب التوحید،اﻟﺮﺩ ﻋﻠﻰ اﻟﺠﻬﻤﻴﺔ ﻟﻠﺪاﺭﻣﻲ، التوحيد لابن خزیمہ،وغيره۔
اس کے علاوہ سہل بدعت کے جتنے جدید عقائد ونظریات ہیں یہ سب ائمہ محدثین کی کتب عقائد میں نہیں ملتے ہیں جو اس بات پر دلیل ہیں کہ ان کی کوئی اصل نہیں ہے نہ ہی ان کی تائید قرآن وحدیث سے ہوتی ہے۔
ورنہ سلف صالحین ان سے بے خبر نہ رہتے۔
قرآن وحدیث کی نصوص کا وہی معنی ومراد قابل قبول ہے جو سلف صالحین نے سمجھا خاص طور پر عقیدہ وایمان کے باب میں۔
رب العالمین ہمیں صحابہ کرام وسلف صالحین جیسا عقیدہ وایمان اور منہج وفھم عطا فرمائیں۔ آمین

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ