سوال (5832)
آج کل میں ایک چیز بہت عام دیکھنے کو مل رہی ہے کہ کوئی معروف شخصیت جب فوت ہوجاتی ہے تو پورے ملک میں ہر مسجد میں غائبانہ نماز جنازہ کروایا جاتا ہے، جبکہ اس کا اصل جنازہ بھی مسلمانوں کے جمے غفیر نے پڑھا ہوتا ہے، اس عمل کی شرعیت میں کیا حیثیت ہے؟ کیا غائبانہ نماز جنازہ کی یہ صورت حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام سے ثابت ہے؟
جواب
غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا ثابت ہے. جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجاشی کا پڑھایا۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَى النَّجَاشِيَّ فِي الْيَوْمِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ خَرَجَ إِلَى الْمُصَلَّى فَصَفَّ بِهِمْ وَكَبَّرَ أَرْبَعًا. [صحیح بخاری: 1245]
رسول اللہ ﷺ نے نجاشی کی وفات کی خبر اسی دن دی جس دن اس کی وفات ہوئی تھی۔ پھر آپ ﷺ نماز پڑھنے کی جگہ گئے۔ اور لوگوں کے ساتھ صف باندھ کر (جنازہ کی نماز میں) چار تکبیریں کہیں۔
البتہ اسے معمول بنالینا درست نہیں,کبھی کسی خاص منفعت کے پیش نظر مثلاً شہید کا یا کسی عالم ربانی کا غائبانہ جنازہ پڑھ لیا جائے تو یہ درست ہے مشروعیت پر یہ واضح حدیث ہے. لیکن معمول بنا لینا کہ ہر عام و خاص کا غائبانہ جنازہ بطور معمول پڑھنے کا آغاز کردیا جائے تو یہ بالکل بھی قابل تحسین عمل نہیں.
موجود دور میں بھی خاص صورت کے پیش نظر ہی غائبانہ نماز جنازہ پڑھایا جاتا یے، آنے والے وقت میں یہ کوئی اور صورت اختیار نہ کرلے اس لیے زیادہ محتاط رہ کر فیصلہ کرلیا جائے تو بہتر ہے۔
فضیلۃ الباحث ابو زرعہ احمد بن احتشام حفظہ اللہ




