سوال (5761)

سوسائٹی میں جہاں میں رہتا ہوں صبح سے کافی سارے یوں بہترین پلے ہوئے وچھے وچھیاں آئے ہوئے ہیں جنکا کوئی وارث نہیں ہے گلے میں کپڑے کی پٹیاں باندھی ہوئی ہیں بس ایک بندے سے میں نے پوچھا یہ پٹیاں کیوں ہیں کیا سین ہے اس نے بتایا یہ بابا رنگ علی کے نام کی لوگوں نے نیاز مان کر آزاد چھوڑی ہوئی ہیں اسی طرح گھومتی رہتی ہیں باہر سے ہی کھاتی پیتی ہیں۔ بہت دل آرہا تھا ایک آدھا وچھا قبضے میں کر لوں خود بھی کھاؤں لوگوں کو بھی کھلاؤں کیا فرماتے ہیں؟ مفتیان کرام
جائز ہوگا یا نہیں نیاز انکے لیے ہوگی ہمیں اللہ کی زمین سے آزاد ملے ہیں جانور؟

جواب

جائز نہیں ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

استاد محترم آپ کی مخالفت نہیں آپ نے ظاہر ہے احتیاط کے پہلو سے درست فتوی دیا ہے البتہ مجھے ایک اشکال ہے کہ یہ کسی غیراللہ کے نام کی جو چیز ہوتی ہے اسکی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں۔
1۔ ایک تو یہ کہ مالک نے صرف اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے کسی مزار پہ چھوڑی ہے وقف نہیں کی ہے تو یہ ابھی بھی مالک کی ملکیت ہو گی۔
2۔ دوسری یہ کہ مالک نے وقف کر دی ہے مگر وہ مزار اوقاف کی ملکیت ہے تو وہ چیز پھر اوقاف کی ملکیت میں چلی جائے گی۔
3۔ تیسری یہ کہ مالک نے وقف کر دی ہے مگر وہ مزار اوقاف وغیرہ کی ملکیت نہیں تو وہ چیز اب کسی کی بھی ملکیت نہیں۔
میرا اشکال ہے کہ اگر ایک توحید والی حکومت ہو گی تو پھر تو وہ یہ سب کچھ لے کر اس شرک کے اڈے کو ختم کر دے گی۔ اگر حکومت توحید والی نہیں تو کیا اس وقت ایک مجبور اوپر تیسری صورت میں اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا؟ کیونکہ اگر وہ تیسری صورت میں فائدہ اٹھائے گا تو وہ کسی کی ملکیت والی چیز کی تو چوری نہیں کر رہا پھر اس پہ گناہ کس چیز کا ہو گا یہ اشکال ہے؟

فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ

ہمارے بعض مشائخ نے اس کو مال غنیمت ہر قیاس کرتے اجازت دے دی ہے، ہمارے نزدیک یہ غیر اللہ کی نذر ہوچکی ہے تو یہ جانور حرام ہو چکا ہے، ہاں اگر اسلامی نظام ہوتا یہ مال غنیمت بنتا تو اور بات تھی، یہ غیر اللہ کے نام کا چڑھاوا ہے، یہ جائز نہیں ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ