سوال (6275)

اگر گاؤں تمام مساجد اور ان کے امام اہل بدعت ہوں تب گھر میں نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟

جواب

اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ البتہ میرا موقف یہ ہے کہ واضح اور کلیئر شرک کرنے والے کے ہاں تو کبھی نہ جائیں گھر میں پڑھ لیں البتہ واضح اور کلیئر شرک والا مسئلہ نہیں بلکہ صرف بدعت والا مسئلہ ہے تو میرے نزدیک مجبوری کی وجہ سے آپ مسجد جا کر نماز پڑھ سکتے ہیں کیونکہ امام بخاری نے بدعتی اور مفتون کے پیچھے نماز پڑھنے کا باب باندھا ہے ہاں مشرک کے پیچھے ایسی کوئی اجازت نہیں ملتی ہے۔ واللہ اعلم

فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ

سائل: (صرف بدعت والا مسئلہ ہے)
شیخ محترم بدعت اگر مکفرہ ہو تو؟
(مجبوری کی وجہ سے اجازت)
شیخ محترم کس طرح کی مجبوری؟
(امام بخاری نے باب باندھا)
شیخ محترم کس بدعتی کے متعلق؟
ایک شخص نے قبلہ رخ تھوک دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکو منصبِ امامت سے ہٹانے کا حکم دیا (ابوداؤد 481)، اہل بدعت تو بالاولی اس منصب کے اہل نہیں، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ بدعت کی عزت و تکریم کرنے کو اسلام کو ڈھانا قرار دیا۔
انکا عمل ہی خلاف سنت ہے تکبیر تحریمہ سے لیکر سلام تک اور پھر اس کا بدعات اور نماز میں ٹھونگیں مارنا، فاتحہ پڑھنے کا وقت تک نہ دینا کئی ایک قسم کی قباحتیں ہیں پھر انے عقائد میں خرابیاں اور بیشمار خرافات ہیں۔۔۔ انکو تو بالاولی اگنور کرنا چاہیئے نہ کی انکی تعظیم کرتے ہوئے انکی اقتداء میں نماز پڑھی جائے۔
واللہ اعلم بالصواب۔
جواب: بھائی جان مشرک یا کفر والے بدعتی کی بدعت مکفرہ ہوتی ہے اس کے پیچھے نماز بؤپڑھنا جائز نہیں لیکن ہر وہ بدعت جو مکفرہ نہ ہو اس کے پیچھے نماز پڑھی جا سکتی ہے۔
فتاوی ثنایہ جلد نمبر 1 میں یہ فتوی موجود ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ بدعتی کے پیچھے نماز پڑھی جائے گی۔ الا یہ کہ بدعتی بدعت مکفرہ والا ہو تو اس کی اپنی نماز صحیح نہیں۔ اور اگر ہمیں فتنے کا اندیشہ نہ ہو تو ہم اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھیں گے۔لیکن دوسری صورت میں کہ اگر امام بدعت غیر مکفرہ والا بدعتی ہو اور ہم اس کے پیچھے نماز پڑھ لیں تو نماز صحیح ہے(اسے لوٹایا نہیں جائے گا) جبکہ مکفرہ والے کے پیچھےنماز درست نہیں(اور اسے لوٹانا پڑے گا)۔
یاد رکھیں کہ جو بدعت بدعت مکفرہ نہیں ہوتی اس میں عموما کسی غلط فہمی کی وجہ سے کوئی شریعت کے خلاف کام کا رہا ہوتا ہے یعنی جان بوجھ کر کوئی اسلام کے خلاف کام نہیں کر رہا ہوتا ہے پس اس کی نیت درست ہوتی ہے ہاں علم کی کمی یا جہالت ہوتی ہے پس عموما جہالت عذر ہوتی ہے پس ہم اس لئے اس کو عذر دیتے ہیں البتہ کفر یا شرک والے کا یہ معاملہ نہیں ہوتا ہے۔
جس نے قبلہ رخ تھوکا تھا وہ بدعتی تھا یا گناہ گار تھا اس کا پہلے فیصلہ کروا لیں پیارے بھائی۔

فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ

سائل: ہمیں تو ایسا گروہ نہیں نظر آتا جو بدعت غیر مکفرہ کا ہی فقط مرتکب ہو۔
بدعت کی سنگینی گناہ سے زیادہ ہے، اگر کھڑے پانی میں پیشاب کرنا منع ہے تو یہ مطلب نہی کہ پاخانہ کیا جا سکتا ہے۔ فیصلہ حدیث نے کر دیا ہے اور اس میں تو کوئی تقسیم ذکر نہیں خواہ مکفرہ ہو یا مفسقہ۔ والسلام
واللہ اعلم بالصواب
جواب: جی بھائی یہی تو کہا ہے کہ اگر سارے بدعت مکفرہ والے ہوں تو انکے پیچھے نماز نہیں ہو گی۔
بھائی جان کس نے کہا ہے کہ بدعت غیر مکفرہ گناہ سے زیادہ سنگین ہے۔
باقی جو پاخانے والی مثال دی ہے وہ درست نہیں آپ ایسے کہیں کہ کوئی کھڑے پانی میں پیشاب کر دے تو اسکا کتنا گناہ ہے اور کوئی غلطی سے کھڑے پانی میں پیشاب کر دے تو اسکا کتنا گناہ ہے فاعتبروا
پیارے محترم بھائی معذرت مگر آپ کے پاس کوئی حدیث ایسی تھی تو پھر سوال ہی نہ پوچھتے
اچھا اب دیکھا آپ محسن تابش ہیں محدث فورم والے۔ ٹھیک میں عبدہ ہوں۔

فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ

شیخ عبداللہ بہاول پوری رحمہ اللہ کہا کرتے تھے کہ کیا کوئی نبوی نماز پڑھنے والا گوارہ کرے گا، کہ اس کے نماز پیچھے ہو، غیر نبی کی نماز آگے ہو۔

فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ

سائل:

مَنْ وَقَّرَ صَاحِبَ بِدْعَةٍ فَقَدْ أَعَانَ عَلَى هَدْمِ الْإِسْلَامِ الشریعۃ للآجری،

(وقال شیخ زبیر علی زئی حسن)
جواب:بھائی جان نے وہ حدیث پوچھی تھی کہ جس میں ہو کہ اگر امام فاسق مفتون یا بدعتی ہو تو اس کے پیچھے کبھی نماز نہیں پڑھنی۔
یہ جو آپ نے حدیث دکھائی ہے یہ آپ کے دعوی پہ صریح نہیں ہے کیونکہ دوسری روایات و اقوال کو سامنے رکھتے ہوئے ایک تو یہاں صاحب البدعۃ مطلق نہیں دوسرا کسی بدعتی کی توقیر کرنے کا آپ کے مسئلے میں کوئی انکار ہی نہیں ہے کیونکہ مجبوری میں کسی کے پیچھے نماز پڑھنا اس کی توقیر کوئی نہیں کہ سکتا کیونکہ مجبوری میں رسول اللہ ﷺ سب سے بڑے بدعتی مشرکین مکہ کے عمل کو ختم نہیں کیا جیسا کہ بخاری میں ہے کہ مشرکین مکہ بدعتیوں نے خانہ کعبہ کا کچھ حصہ مجبوری کی وجہ سے بنیاد سے بار کر دیا بعد میں رسول اللہ ﷺ نے عائشہ کو کہا تھا کہ میرا دل کرتا ہے کہ ان بدعتیوں کی اس بدعت کو ختم کر دوں مگر اس کا نقصان بھی ہو سکتا ہے کہ لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے ہیں وہ کنفیوز نہ ہو جائیں۔
پس پیارے بھائی رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے کہ من یرد اللہ بہ خیرا یفقہ فی الدین
یہ ایک حقیقت تھی جو میں نے بیان کی ہے باقی شیخ محترم کی وہ بات تو بالکل درست ہے کہ اگر کسی کا دل کسی بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنے پہ مطمئن نہیں ہوتا تو اس کو ہم غلط نہیں کہتے دیکھیں جیسے گوہ کو رسول اللہ ﷺ نے خود نہیں کھایا لیکن کھانے سے منع بھی تو نہیں فرمایا اسی طرح کوئی بدعتی کے پیچھے پڑھتا ہے تو اسکو اجازت ہے البتہ کسی کا دل مطمئن نہیں ہوتا تو وہ ایک علیحدہ معاملہ ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ

سائل:

من أحدث حدثًا أو آوى محدثًا فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين لا يقبل الله منه صرفًا ولا عدلًا (مسند احمد – صحیح)

شیخنا المکرم! أحسن اللہ الیک، جب بدعتی کا کوئی فرض عمل قبول نہی ہوتا تو کیسے اس کی اقتداء جائز ہوسکتی؟ جبکہ اس حدیث میں آوی کے الفاظ سے یہ بھی وضاحت ہوگئی کہ اسکو پناہ دینا اس کی اعانت ہے جس کی ممانعت آگئی۔۔
مزید شیخ ابن عثیمین کا کلام بڑا واضح ہے اور اس سے اس بات (کہ بدعت کی سنگینی معصیت سے زیادہ ہے) کی تائید بھی ہوگئی کیونکہ لعنت کا مصداق بدعتی ہے نہ کہ معاصی۔

وقال الشيخ ابن عثيمين رحمه الله : ” (من أحدث فيها) أي في المدينة حدثا أو آوى محدثا، والحدث هنا يراد به شيئان، الأول: البدعة، فمن ابتدع فيها بدعة فقد أحدث فيها؛ لقول النبي صلى الله عليه وسلم: ( كل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة) فمن أحدث فيها حدثا، أي ابتدع في دين الله ما لم يشرعه الله في المدينة: فعليه لعنه الله والملائكة والناس أجمعين، يعني استحق أن يلعنه كل لاعن والعياذ بالله؛ لأن المدينة مدينة السنة مدينة النبوة، فكيف يحدث فيها حدث مضاد لسنة الرسول صلى الله عليه وسلم ؟
والنوع الثاني من الحدث: الفتنة، أن يحدث فيها فتنة بين المسلمين، سواء أدت إلى إراقة الدماء، أو إلى ما دون ذلك من العداوة والبغضاء والتشتت، فإن من أحدث هذا الحدث فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين.
أما من أحدث معصية عصى الله فيها في المدينة، فإنه لا ينطبق عليه هذا الوعيد، بل يقال: إن السيئة في المدينة أعظم من السيئة فيما دونها، ولكن صاحبها لا يستحق اللعن، الذي يستحق اللعن هو الذي أحدث فيها واحدا من أمرين: إما بدعة وإما فتنة”.
انتهى من “شرح رياض الصالحين” (6/ 213) .

شیخنا! گوہ یا خانہ کعبہ والی مثال سمجھنا مشکل ہے کیونکہ طعام ولباس میں تو اصل اباحت ہے۔
ہماری بات ایک خاص عمل یعنی نماز پر چل رہی تو کیا یہ قیاس مع الفارق نہیں؟
میں شیخنا اپنی کم علمی کے ساتھ آپ کے زیادہ علم کا معترف بھی ہوں آپ سے آپ کے مضامین سے بہت سیکھا ہوں۔
جواب:

أما من أحدث معصية عصى الله فيها في المدينة، فإنه لا ينطبق عليه هذا الوعيد، بل يقال: إن السيئة في المدينة أعظم من السيئة فيما دونها، ولكن صاحبها لا يستحق اللعن، الذي يستحق اللعن هو الذي أحدث فيها واحدا من أمرين: إما بدعة وإما فتنة”.
انتهى من “شرح رياض الصالحين” (6/ 213)

پیارے بھائی ایک تو اپنے لگائے گئے کمنٹ میں ابن عثیمین رحمہ اللہ کے یہ الفاظ پڑھ لیں کہ بدعت غیر مکفرہ بڑا گناہ نہیں بلکہ فاسق فاجر ہونا بڑا گناہ ہے ہاں لعنت کا مستحق بدعتی ہو گا گناہ گار نہیں ہو گا۔
دوسرا یہ کہنا ہے کہ آپ کی یہ حدیث بھی آپ کے دعوی سے متعلق نہیں ہے دعوی تو آپ نے مجبوری میں بھی نماز نہ پڑھنے کا کیا مگر دلیل آپ کسی بدعتی کو بغیر کسی مجبوری کے پناہ دینے کیدے رہے ہیں۔
تیسری جو آپ نے لکھا کہ بدعتی کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا ہے اس ترجمہ کو دوسرے ایسے کرتے ہیں کہ کسی نے مدینہ میں گمراہی پھیلانے کی کوشش کی یا گمراہی پھیلانے والے کو پناہ دی تو اللہ قیامت کے دن اس سے کوئی سفارش یا بدلہ قبول نہیں کرے گا (یعنی اس حرکت کے بدلے میں)
پس یہ روایت بھی آپ کے دعوی پہ صریح نہیں ہے۔
یہ سب میں اس لئے کہ رہا ہوں کہ اگر کوئی صریح روایت اس مجبوری میں بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنے والے کے بارے ملتی تو پھر کبھی بھی امام بخاری جیسا فقیہ باب إمامة المفتون والمبتدع نہ بناتا
میں جانتا ہوں کہ اس سلسلے میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے البتہ میری رائے میں ہر ایک کو اپنے دل کے اطمینان والی صورت کے مطابق عمل کر لینا چاہئے دوسرے پہ تنقید نہیں کرنی چاہئے۔ واللہ اعلم
پیارے بھائی غلطی ہر انسان سے ہو جاتی ہے لیکن میں پورا خیال رکھتا ہوں کہ قیاس مع الفارق نہ ہو میری کسی دلیل میں قیاس مع لافارق نہیں آپ نے بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنے کی بات پوچھی تھی اور بدعتی مطلق کی بات ہو رہی ہے اور بدعتی کسی بھی معاملہ میں ہو سکتا ہے مثلا کھیرے کو کاٹنے والے الیاس قادری کو بھی آپ بدعتی ہی کہتے ہیں ۔
دوسرا میں نے جو گوہ کی مثال دی وہ بدعتی کے لحاظ سے بالکل نہیں دی بلکہ میں نے وہ صرف قیاس کیا ہے کہ جیسے فی نفسہ گوہ جائز ہے لیکن دل مطمئن نہیں تو آپ نہ کھائیں اسی طرح کسی کا دل بدعتی کے پیچھے نماز پہ مطمئن نہیں تو نہ پڑھے وہ درست ہو گا کوئی گناہ گار نہیں ہو گا ۔واللہ اعلم
دیکھیں پیارے بھائی میرے سامنے شرک والے کے اعمال قبول نہ ہونے کی واضح دلیل موجود ہے پس اس کے پیچھے نماز پڑھنے کو میں جائز نہیں سمجھتا البتہ جب تک بدعت غیر مکفرہ کے پیچھے واضح اور صریح الفاظ میں مجبوری میں نماز پڑھنے والی روایت نہیں ملتی میں مجبوری میں اسکو جائز کہتا رہوں گا ۔
ہاں بغیر مجبوری اگر کوئی اس کے پیچھے پڑھتا ہے تو اس کے غلط ہونے کی دلیل موجود ہے جو آپ نے اوپر من وقر صاحب البدعۃ والی روایت نقل کی ہے کیونکہ جب دوسری مسجد موجود ہے تو پھر ایسا کرنا اسکی عزت افزائی کرنا ہو گا جو ناجائز ہے ۔
البتہ بعض لوگوں کا تقوی ابو ذرؓ جیسا ہو سکتا ہے تو وہ پھر بھی عام بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنے کو نا جائز کہتے ہیں تو میں انکے اس فتوی کا دل سے احترام کرتا ہوں ۔
میں میرا اس سلسلے میں موقف کا خلاصہ ہے امید ہے آپ کو سمجھ آ گئی ہو گی۔

فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ

خوارج کے اعمال قبول ہوتے ہیں کیا؟
اور اگر قبول نہی ہوتے تو کیا ان کی امامت میں پڑھی جانے والی نمازیں قابل قبول ہیں؟
اگر اس قدر جہنم کے کتوں کے پیچھے اصحاب جیسے عظیم اور جلیل القدر لوگ نماز پڑھ سکتے۔
تو آج کے اہل ایمان کیوں نہیں پڑھ سکتے؟
اور امام احمد بن حنبل نے کیا جہمیہ کے پیچھے نماز نہی پڑھی کیا ابن تیمہ رحمہ اللہ نے اہل بدعت کی امامت میں نماز نہی ادا کی؛
دوسری بات “من وقر ” دنیا میں اسلامی ریاست کی امامت ہر بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے جیسے مصلے کے امام مسجد کے خطیب ویسے ریاست کے بھی تو کیا اہل بدعت کی حمایت کر کے یا ان پر خاموشی اختیار کر کے ان کو پوری ریاست کی امامت سونپ دینا عزت اور توقیر نہی اگر عزت اور توقیر ہے اس امامت عظمیٰ پر فائز کرنا تو بھلا یہاں مسجد میں کیوں اس بحث کو لایا جاتا؟
اگر آپ کہیں مسجد خالص دینی معاملہ تو بھائی جان ایک مسلم حاکم ایک اسلامی ریاست میں مسلمانوں کی پوری زندگی موت و حیات ہی دینی معاملہ ہوتا؛
شیخنا! امام بخاری رحمہ اللہ نے جو باب باندھ کر تعلیقا قول نقل فرمایا وہ ویسے بھی غیر ثابت ہے لہذا ایک غیر ثابت قول سے کوئی مسئلہ کیسے اخذ کیا جا سکتا جب کہ اہل السنہ کا اس بابت اتفاق ہے کہ اہل بدعت کے پیچھے نماز نہیں ہوتی۔ (اہل السنہ سے مراد ائمہ متقدمین ہیں)
میں نے جو روایت پیش کی اس میں مطلقا بدعت کا ذکر ہے نہ کہ اہل مدینہ، اہل مدینہ والی روایت بخاری مسلم میں الگ ہے، البتہ ابن عثیمین کا کلام اہل مدینہ کے بارے یہ وضاحت کرتا ہے کہ دوسرے علاقوں کی نسبت مدینہ میں فساد زیادہ معصیت والا ہے۔
سائل: فاتقوا اللہ ما استطعتم! ایک ہے مسجد کا امام، ایک کسی جماعت/گروہ/سفر کا امام اور ایک ہے ریاست کا امام، کیا ان سب کا حکم ایک ہی ہے؟
نہیں! اگر ایسا ہوتا تو مودودی کا دعوی درست قرار پاتا کیونکہ وہ اپنے آپ پر جماعت کی بجائے ریاست والے امام/خلیفہ والی روایات چسپاں کرکے سب کو اپنی اطاعت واجب قرار دیتا تھا اور منکر کی تکفیر کرتا تھا۔
لہذا ان سب کو خلط ملط نہ کیجئے۔
دوسرا امام احمد بن حنبل سے تو سخت مذمت ملتی ہے بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنے پر انہوں نے خود کوڑے کھائے، جسا کہ انکے بیٹے صالح (مسائل الصالح میں) بیان کرتے ہیں:
قلت: من خاف ان یصلی خلف من لا یعرف؟ قال(امام احمد): یصلی فان تبین لہ انہ صاحب بدعۃ أعاد۔
امام احمد نے اپنے بیٹے سے کہا نماز پڑھ لے لیکن معلوم پڑ جائے کہ امام بدعتی ہے تو نماز لوٹا لے۔
امام احمد بن حنبل نے یہ نہ کہا کہ بدعتی کا وبال اس پر لیکن مقتدی کی ہو جائیگی بلکہ نماز لوٹانے کا حکم دیا، اسی طرح خاص جہمیہ کے پیچھے تو صریح ممانعت وارد ہوئی ہے امام احمد سے السنہ لعبداللہ بن احمد بن حنبل میں۔
تو اس مسئلہ میں کوتاہی کرکے اپنی نماز کی خوب حفاظت واضح ہوتی ہے کیونکہ شہادتوں کے بعد پہلا عمل ہی نماز ہے۔
جواب: سبحان اللہ پیارے بھائی اوپر امام احمد بن حنبل کا خالی قول ذکر کیا اور نیچے امام بخاری کے قول کو دلیل نہیں مانا بلکہ کہ دیا کہ اھل سنت کا اجماع ہے یعنی امام بخاری کا قول جس بات کے خلاف ہے اور امام بخاری اسی قول میں باقی تابعین کے اقوال بھی نقل کر رہے ہیں ان سب کو ذکر کر کے آپ کہ رہے ہیں کہ اس کے خلاف اھل سنت کا اجماع ہے یا للعجب
اسکی کچھ سمجھ نہیں آئی میں نے کہا تھا کہ آپ کے کمنٹ میں ابن عثیمین نے لکھا کہ مدینہ میں بدعت کرنا اور مدینہ میں گناہ کرنا برابر نہیں بلکہ گناہ کرنا زیادہ بڑا جرم ہے اور گناہ کرنے والے فاسق فاجر کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے تو پھر سوال پوچھا تھا کہ بدعت جو بوقل ثیمین رحمہ اللہ کم سنگین گناہ ہے اس کے مرتکب کے پیچھے کیوں نہ ہو گی۔

فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ

سائل:

بارک اللہ فیک، أحسن اللہ الیک وجزاکم۔خیرا فی الدنیا والآخرۃ۔ آمین