سوال (6047)
غار ثور میں لوگ نوافل پڑھتے ہیں؟ کیا یہ درست عمل ہے؟
جواب
بلا دلیل ہے، اگر کوئی اس کو سنت قرار دے تو بدعت ہوجائے گا، وہاں نہ نماز پڑھنے کی فضیلت ہے، نہ سلف سے ایسا کوئی عمل ملتا ہے، حتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کوئی عمل منقول نہیں ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سائل: جیسا کہ گزشتہ دنوں میں اللہ کے فضل سے آپ عمرہ ادا کرنے گئے تھے ما شاءاللہ، تو آپ کا کیا طرزِ عمل رہا غار ثور میں؟ میرے ماموں لوگ بھی اہل الحدیث ہیں وہ لوگ جب عمرہ کرنے گئے تھے تو وہ بھی نوافل پڑھ کے آئے تھے غار میں، نیز اگر مناسب سمجھیں تو کیا آپ عمرہ کی روٹین بتا سکتے ہیں (مختصراً وائس میسیج میں) موٹی موٹی اور خاص چیزیں جس میں ذکر کیا جائیں۔ بارک اللہ فیک
جواب: غار ثور کا عمرے سے کوئی تعلق نہیں ہے، وہاں خاص نیت کے ساتھ نماز پڑھنا بھی بدعت کے زمرے میں آئے گا، بس ایسے ہی جانا چاہیے، کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہاں آئے تھے، کیسا ہے، کیسے محسوس ہو رہا ہے، نبی کی یاد میں جائیں ایک الگ بات ہے، باقی اس کا عمرے، زیارت وغیرہ کا حصہ سمجھنا یہ بل دلیل ہے، عمرہ میقات سے احرام، نیت، تلبیہ ہے، اس کے بعد حجر اسود کو بوسہ دینا ہے، یا ہاتھ کے اشارے سے استلام کرنا، بسم واللہ اکبر کہنا، مرد ہے تو دائیں کندھے کو ننگا رکھے، پھر طواف کے سات چکر مکمل کریں، ہر چکر میں وہی بسم اللہ و اللہ اکبر کہنا، درمیان میں جو دعائیں آتی ہیں، وہ پڑھتے رہیں، رکن یمانی سے لے کر حجر اسود تک
“رَبَّنَآ اٰتِنَا فِى الدُّنۡيَا حَسَنَةً وَّفِى الۡاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ”
پڑھتے رہنا، اس کے بعد مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھنا، وہیں رش ہو تو حرم میں کہیں بھی ادا کرلیں، پھر صفا پہاڑی پر چلے جائیں، اس کے بعد جو دعا ہے، وہ کم سے کم تین دفعہ ہو، دنیا و جہاں کی دعائیں کریں، پھر مروہ پہ جائیں، وہاں اس طرح دعائیں کریں، سات چکر پورے کرے، صفا سے شروع ہوگا، مردہ پہ ختم ہوگا، اس کے بعد قصر یا حلق کروائیں، حلق افضل ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سائل: بارک اللہ فیکم و جزاکم اللہ خیرا یا شیخ۔
کیا یہ بات بھی جھوٹ پر مبنی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے پہلے چھپ چھپ کر غار میں عبادت کرنے جاتے تھے؟ سننے میں آتا ہے کہ اسی طرح آپ اک دن عبادت کر رہے تھے غار میں جب جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے تھے پہلی دفعہ نبوت لے کر؟
جواب: چھپ چھپ کر کرنے کا ذکر نہیں ہے، بس مطلق ذکر ہے کہ دن اور رات کی گھڑیوں میں غار حراء میں عبادت کرتے تھے، طریقہ کار کیا تھا، اس حوالے سے کوئی بات ہمارے علم میں نہیں ہے، آپ جاتے تھے، یہ وحی کے نزول کے پہلے کا واقعہ ہے، آپ کو تنہائی پسند آنے لگی تھی، آپ کو تنہائی اچھی لگتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے جاتے تھے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سائل: محترم اس کی نسبت سے غار حرا میں بھی لوگ جاتے ہیں نوافل ادا کرنے؟ وہاں کیا حکم ہے؟
جواب: جائز نہیں ہے، نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے، نہ صحابہ کرام سے منقول ہے، نہ ہی کسی سلف سے منقول ہے، نہ ہی وہاں نماز کی فضیلت ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سائل: یعنی محترم یہ کہنا درست ہو گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غار حرا میں نبوت کے بعد ایک دفعہ بھی عبادت کے لیے جانا ثابت نہیں ہے۔
جواب: ہماری معلومات کے مطابق بالکل اس طرح ہے، اور یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ




