غزہ ! ہم تمھارے لئے کچھ نہ کر سکے
ہم بول تو سکتے تھے، ہمارے حکمران کوئی جھوٹا سچا احتجاج تو کر سکتے تھے، کوئی جھوٹی سچی امداد ہی بھیج سکتے تھے۔ہم سے تو برادران یوسف اچھے تھے،کم از کم جھوٹ موٹ روتے تو تھے۔
غزہ ! ہم تمھارے لئے کچھ نہ کر سکے۔ اس کے باوجود نہ کر سکے کہ تم نے اپنے مقابل اس فتنے کا سر کچل کر ثابت کر دکھایا تھا کہ اس کی ساری ہیبت مصنوعی اور اس کی فرعونی طاقت ناقابل تسخیر نہیں، ہمیں مگر وہن کھا گیا۔ ہم تو تیرے نام پر سوائے چندہ اکٹھا کرنے کے کچھ نہ کر سکے۔ کوئی جیتا جاگتا احتجاج بھی نہیں۔ ہم نے تو تیرے لیے بطور انسان اتنا بھی احتجاج نہ کیا، جتنا مغرب کے طلبا اور عوام نے کر دکھایا ، ہم نے تیرے خون کے بہتے نیل اور تیری اچھلتی بوٹیوں کے فوارے سے زیادہ اپنی سیاست کو توجہ دی۔ کوئی ایسا احتجاج نہ اٹھا جو کم از کم ہمیں برادران یوسف کی صف میں ہی لا کھڑا کرتا۔ جو ہمارا رونا ہی ریکارڈ کر جاتا۔
نہیں شرمندگی نہیں، یہ کوئی لفظ ہمارے لئے نہیں ہو سکتا۔ ہم پر تو ایک زمانہ شرمندہ رہے گا۔ ہمارے ایمان اور ہماری بزدلی پر، ہماری بے حمیتی اور ہماری بے حسی پر۔ ہماری اس اصلی بے حسی پر جو اپنے کمزور ایمان کے باعث ہم نے بے بسی کے نام پر دنیا کے سامنے بے غیرتی سے اوڑھے رکھی۔ انسانیت کا دم بھرتی جعلی اور اور کسی ہونکتے کلب کی طرح مفاد پر لپکتی دنیا کا بھی قصور ہوگا،مگر اصل قصور ہمارا بھی ہے، تیرے اجڑتے ہم کیوں زندہ رہے؟ ہمارے تیل، ہمارے ایٹم، ہماری سرحدیں، ہماری فوجیں،ہمارے حکمران اور ہمارے کچن آخر کیوں اور کیسے زندہ رہے؟ میں یہ جانتا ہوں کہ اب کے ہمیں ضمیر کے بغیر زندہ رہنا ہوگا، تاریخ ہماری قسمت پر روتی رہے گی کہ یہ وہ لوگ تھے، جن کو موت تو نصیب ہوئی مگر قبر نہ مل سکی، جن کے زندہ لاشوں کو بس ایک ہی کتبہ ملا، جس پر لکھا تھا، بے حمیت، بے حس اور مردہ ضمیر لوگ!
جن کو زندگی تو ملی مگر ضمیر کے بغیر والی بے حیا زندگی ملی، جن کے صحنوں میں ویڈیوز کی صورت غزہ کے ننھے لاشے اور لاشوں کے قیمہ کئے ہوئے ٹکڑے اڑ اڑ کے پہنچتے رہے مگر جو پتھر کے ہو گئے، پورا عہد پتھر کا ہوگیا، ہماری عقلیں اور ہمارے جذبات پتھر کے ہو گئے۔ ہمارے ہاتھ پتھر کے ہوگئے، ہماری زبانیں پتھر کی ہو گئیں۔
غزہ! تو اس انسانیت اور ایمان کا آخری ٹیسٹ تھا اور مجھے افسوس ہے کہ میرا بے حیا عہد اس ٹیسٹ میں ناکام ہوا ہے،میں ناکام ہوا ہوں اور میری دانش اور میرا محافظ ناکام ہوا ہے، نہیں ناکام بھی نہیں کہ تاریخ لڑ کے ہارنے والوں کا بھی احترام کرتی ہے، مگر ہم وہ کلاب دنیا نکلے جو کم ظرف زندگی کے لالچ میں کتوں سے بھی زیادہ حریص ہو گئے۔ ہم نے انسانیت کی اس لاش پر آنکھیں موند لیں، جس پر جانور بھی بلک اٹھتے اور آسمان کا سینہ چیر دیتے۔
غزہ! تو کٹتا رہا، تیرے چیتھڑے اڑتے رہے، تیرے معصوم وجود غباروں کی طرح پھٹتے رہے، تیری مسجدوں میں مؤذن اللہ اکبر کہتے مگر اذان پوری کرنے سے پہلے ان کا وجود فضا میں تحلیل ہو جاتا، مائیں سحریاں بناتیں مگر ان لقموں کو کھانے اور ان برتنوں کی طرف ہاتھ بڑھانے سے پہلے لخت جگروں کا خوں برتنوں میں بھرتا رہا، تیرے وجود مسعود کو کتے بھنبھوڑتے رہے مگر ہم پھر بھی مسلمان بھی رہے ،ہم عامل قرآن بھی رہے، ہم صاحب رمضان بھی رہے اور ہم انسان بھی رہے، ہم اسلام کا قلعہ رہے اور ہم دنیا کے ہاں موثر اور باعزت بھی رہے۔غزہ ہم تو شرمندہ بھی نہیں کہ ہم شرمندہ ہونے کا بھی استحقاق کھو چکے ہیں۔
یوسف سراج حفظہ اللہ