غزہ کیلئے ہم کیا کر سکتے ہیں؟
سوال اٹھ رہا ہے کہ غزہ کیلئے ہم کیا کر سکتے ہیں؟ غزہ ہی نہیں، یہ سوال ویسے اس وقت پوری امت کے حوالے سے اہم ہے اور مجھے لگتا ہے، اسی ایک سوال میں امت مسلمہ کا تحرک ، بحالی اور عروج پنہاں ہے۔ جواب اس اہم سوال کا یہ ہے کہ اپنا اپنا کام کیا جائے اور جس کا جو کام ہے، اسے یاد دلایا جائے، میں سعودی مفتی اعظم شیخ عثیمین کی گفتگو سن رہا تھا، اللہ ان پر کروڑوں رحمتیں برسائے، فلسطین کے متعلق فرما رہے تھے کہ یہ مسئلہ صرف قوت سے حل ہوگا، قوت حکمرانوں کے پاس ہے، چنانچہ لازم ہے کہ مسلم عوام صرف ایک جھنڈے تلے باہر نکلیں اور حکمرانوں کو ان کا کام یاد دلائیں، عوام انھیں بتائیں کہ وہ جمہوری حکمران ہوں یا ان کی پشت پر اصلی حکمران، ان سب کو عوام نے خود پر حکمرانی اور اپنی نمائندگی کا جو حق سونپا ہے، یا کسی طرح انھوں نے حاصل کر لیا ہے، تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ عوام کے جذبات اور امنگوں کے مطابق بروئے کار آئیں، امام نووی کے دور میں حکمران نے عوام پر ٹیکس لگا دیا کہ ملک کے دفاع میں اس کی ضرورت پڑ گئی تھی، امام صاحب نے دو ٹوک کہا کہ پہلے اپنے شاہی تاج اور دوسرے شاہی زیورات پگھلا کے انھیں قومی خزانے میں جمع کرواؤ، خدام و حشم کی فوج سے کام لو پھر بھی اگر ضرورت ہوئی تو پھر عوام سے مطالبہ کرنا۔
ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ جس کا جو کام ہوتا ہے، وہ اسی کام کیلئے آگے تنظیمیں اور لوگ رکھ لیتا ہے، ہماری حکومت کا کام ہے کہ وہ سفارتی محاذ پر جبکہ فوج کا کام ہے کہ وہ عسکری محاذ پر فلسطین کیلئے جو ہو سکتا ہے، وہ کرے، ہاں جب حکومت پورے اخلاص سے کچھ کرنے لگے تو اس کے بعد جہاں ضرورت ہو قوم اپنی حکومت کا ساتھ دے۔
قوم کا یہی کام ہے کہ وہ جمہوری اور شعوری طریقے سے اپنے حکمرانوں کے اور دنیا کے سامنے اس طور پر اپنا مطالبہ رکھے کہ دنیا اور حکومت تک بخوبی ان کے جذبات پہنچ جائیں۔ اس کام کیلئے باہر نکلنا پڑے، علماء اور سیاست دانوں سے ملنا پڑے،سوشل میڈیا پر جذبات کا اظہار کرنا پڑے، غرض جو بھی طریقہ اختیار کرنا پڑے کر گزرنا چاہئے، اور اس میں کوئی کوتاہی نہ برتنی چاہیے۔
بس یہی ایک کام ہے، جس کا فلسطین کو فائدہ ہو سکتا ہے، باقی آپ کی دعا، صدقہ و خیرات اور دلی جذبات سے فلسطینیوں کو کچھ زیادہ فائدہ نہیں پہنچنے والا۔ جس سطح کا مرض ہو، اسی پوٹینسی کی دوا ہو افاقہ ہوتا ہے، بات اگر انفرادی سطح کی ہوتی تو انفرادی سطح کی کوشش و دعا کام آ سکتی تھی، لیکن جس عالمی سطح کا یہ مسئلہ ہے، اپنی اپنی حکومتی سطح پر عالمی سطح کا اقدام ہی اس کا حل ہے۔ یہ وہ کام ہے، جب بھی قوم نے مجتمع ہوکر کیا، امت کے مسائل حل ہونے کی سبیل پیدا ہونے لگے گی۔ ان شاءاللہ
مزید پڑھیں: غزہ ! ہم تمھارے لئے کچھ نہ کر سکے
یوسف سراج حفظہ اللہ