غزہ! پر ہم وہی کہیں گے

غزہ پر ہم وہی کہیں گے، جو غم کے موقع پر بے بسی مگر امید و ایمان سے رسول کریم نے فرمایا، ننھے ابراہیم پیغمبر کے ہاتھوں میں جان دے چکے تھے، باپ کا دل غم سے زخم ہو چکا تھا اور آنکھیں آنسو بہا رہی تھیں مگر ساتھ ہی دل اور لبوں پر ایمان و یقین کا الوہی ترانہ تھا، ابراہیم تیرے فراق میں دل گو غمگین ہے مگر لبوں پر وہی آئے گا، جو خالق کو راضی کردے۔ اس لئے کہ اس کی مشیت اور اس کی تدبیر کو وہی جانے، جو شخص یہ مان لیتا ہے کہ عرش پر اس کا ایک الہ ہے اور وہ جو کرتا ہے، بندے کے بہترین مفاد میں کرتا ہے، وہ چاہے تو ابراہیم کو آگ سے اور یونس علیہ السلام کو مچھلی سے فی الفور بچا لے اور چاہے تو یوسف کو کنویں میں گرنے اور مصر میں بکنے دے کہ اسے معلوم تھا، یہ راہ تخت کی شاہراہ ہے۔
آج بھی جو ہوا، آگے بھی جو ہوگا، وہی ہوگا، جو وہ چاہے گا،مسلم اگر جاگ کر اپنی راہ پہچان لیتے تو یہ کہ ہوتا ،جو آج امت کو دیکھنا پڑا۔ لیکن یہ اس کی سنت ہے، مکہ چھوڑنے پر مدینہ دیتا ہے، ابو جہل کے بدلے عمر ابن خطاب دیتا ہے،دیس سے نکالنے والوں کی جگہ مدینے کے انصار دیتا ہے اور آدمی چاہے نہ چاہے بدر میں نکال دیتا ہے، اپنی پرحکمت تدبیر پر وہ غالب ہے، اپنی منشا کر دکھانا جانتا ہے،اکثر لوگ یہ مگر نہیں جانتے۔ ہر مرحلے میں امتحان ہے اور ہر لمحے میں امید ہے، اگر کرنے والے کچھ نہ کر سکے اور جانے والے آسمان کے ستاروں کے برابر جان ہار گئے تو ایسا نہیں کہ معاملات خدا کے ہاتھ سے نکل چکے،وہ فعال کما یرید ہے،اور اسکی گرفت سے بڑھ کر کسی کی پکڑ نہیں، اس کی نگاہ سے کوئی پوشیدہ نہیں اور اس سے بڑھ کر کوئی مدبر الامور نہیں۔ اس نے کئی رات ایسی نہیں بنائی جس کی صبح نہ ہو، یہ چوٹ اگر آج ہمیں پہنچی ہے، تو انھیں بھی اس سے پہلے ایسی چوٹ پہنچ چکی ہے، انسانی تاریخ میں نہ یہ ستم نیا ہے،نہ قربانی نئی، نہ اس کے بعد سورج ہی مغرب سے طلوع ہونے والا ہے۔ اقبال نے تاریخ کا یہ سبق اور سنت الٰہیہ دو مصرعوں میں سمو دی۔
اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹُوٹا تو کیا غم ہے
کہ خُونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحَر پیدا
ان شااللہ ، کچھ بھی رائیگاں نہ جائے گا، وقت اچھا بھی آئے گا۔ خدا کی زمین اور اس کے زماں کی گنتی انسانی لمحات سے نہیں ہوتی، خدا کے شمار الگ خدا کے صبح شام کے حساب الگ سو
درد تھم جائے گا غم نہ کر، غم نہ کر
یار لوٹ آئیں گے، دل ٹھہر جائے گا، غم نہ کر، غم نہ کر

زخم بھر جائے گا
غم نہ کر، غم نہ کر

دن نکل آئے گا
غم نہ کر، غم نہ کر

ابر کھل جائے گا، رات ڈھل جائے گی
غم نہ کر، غم نہ کر

رت بدل جائے گی
غم نہ کر، غم نہ کر

غزہ کے لوگ خون سے سج کر شہادت اوڑھ کر اپنا ایمان بچا گئے، امید و ایمان ہی ہمارا بھی سرمایہ ہے، خدا سے نا امیدی ایمان کا نہیں شیطان کا راستہ ہے۔ سو
گلہ نہیں جوگریزاں ہیں چند پیمانے
نگاہ یار سلامت، ہزار مے خانے

 یوسف سراج حفظہ اللہ

یہ بھی پڑھیں: ارشاد بھٹی کے علماء کے ساتھ پوڈ کاسٹ