سوال (504)

غیر مؤکدہ سنتوں کی وضاحت کردیں ؟ اور یہ بتائیں کہ غیر مؤکدہ سنت نماز کیسے پڑھی جاتی ہیں ؟

جواب

احادیث میں جن غیر مؤکدہ سنتوں کا ذکر آیا ہے ، ان میں عصر سے پہلے چار رکعت مغرب سے پہلے دورکعت اور عشاء سے پہلے دو رکعت کا ذکر ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

رَحِمَ اللَّهُ امْرَأً صَلَّى قَبْلَ الْعَصْرِ أَرْبَعًا . [سنن الترمذي : 430]

«اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جس نے عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھیں»
سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

“صَلُّوا قَبْلَ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ فِي الثَّالِثَةِ لِمَنْ شَاءَ كَرَاهِيَةَ أَنْ يَتَّخِذَهَا النَّاسُ سُنَّةً” [صحيح البخاري : 1183]

«مغرب کے فرض سے پہلے (سنت کی دو رکعتیں) پڑھا کرو۔ تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا کہ جس کا جی چاہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پسند نہ تھی کہ لوگ اسے لازمی سمجھ بیٹھیں»
ابن حبان کی روایت ہے کہ

“ان النبی صلى الله عليه وسلم صلی المغرب رکعتیں”                                                                           [ابن حبان۔ موارد الظمان الی زوائد ابن حبان باب الصلاۃ قبل المغرب (۶۱۷)ما من صلاة مفروضة موارد الصمار باب الصلاۃ قبل الصلوات و بعدھا (۶۱۵)]

«کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب سے پہلے دو رکعت پڑھیں»
عشاء کی دو رکعت کے بارے میں حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کی روایت سے استدلال کیاگیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ۔

“بین کل اذانین صلوة”
[فتح الباري ج ۲ کتاب الاذان باب کم بین الاذان والاقامة رقم الحدیث : 424 ]

«کہ دو اذانوں (یعنی اذان و تکبیر ) کے درمیان نماز ہے»
ابن حبان میں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ

“مامن صلوة فریضة الاوبین یدیها رکعتان”

«کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر فرض نماز سے پہلے دو رکعت ہیں۔»
ان دو احادیث سے مذکورہ بالا غیر مؤکدہ سنتیں ثابت ہوتی ہیں۔
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کی حدیث کے آخر میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ لمن شاء یعنی جو چاہئے یہ رکعت پڑھ سکتا ہے جس کا مطلب ہے پڑھنا بھی ضروری نہیں ہے۔
جہاں تک آپ کے سوال کاتعلق ہے تو وہ پوری طرح واضح نہیں ہے ۔ جہاں تک میں سمجھا ہوں تو شاید آپ یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ چار رکعات والی نماز میں دوسری رکعت یعنی پہلے تشہد کے بعد اٹھ کر جب تیسری رکعت شروع کرے تو اعوذ اور بسم اللہ پڑھے یا نہ پڑھے اور پہلے تشہد میں صرف التحیات پڑھے یا درود شریف اور دعا بھی۔
نماز شروع کرنے کے بعد یعنی دعائے استفتاح سبحانک اللہ وغیرہ کے بعد اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھنا تو احادیث سے ثابت ہے لیکن اس کے بعد دوسری تیسری یا چوتھی رکعت شروع کرنے پہلے سے تعوذ اور تسمیہ (اعوذ باللہ اور بسم اللہ ) پڑھنے میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ جو لوگ اعوذ باللہ پڑھنے کے قائل ہیں ان کی دلیل قرآن کی یہ آیت ہے کہ

“فاذا قرات القرآن فاستعذ بالله”

کہ جب قرآن پڑھو تو اس سے پہلے اعوذ پڑھا کرو۔ا ب جب سورہ فاتحہ قرآن میں سے ہے تو جب بھی یہ پڑھی جائے گی اس کے ساتھ اعوذ پڑھی جائے گی۔اسی طرح بسم اللہ کا ذکر بھی آتا ہے۔
لیکن جو لوگ پہلی رکعت کے علاوہ دوسری رکعات میں الحمد شریف کے ساتھ کچھ اور پڑھنے کے قائل نہیں ان کی دلیل حضرت ابوہریرہ ؓ کی یہ حدیث ہے جو صحیح مسلم میں ہے کہ

’’کان رسول الله صلى الله عليه وسلم اذا نهض فی الرکعة الثانیة افتتح القراة با الحمد لله رب العالمین ولم یسکت‘‘
[مسلم مترجم ج۱ کتاب المساجد باب مایقال بین تکبیرة الاحرام والقراءة 154]

کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دوسری رکعت کے لئے اٹھتے تو آپ قرأت سورہ فاتحہ سے شروع کرتے اور سکوت نہ فرماتے ‘یعنی اس سے پہلے کوئی چیز خاموشی سے نہ پڑھتے۔
دونوں طرف کے دلائل کا جائز ہ لینے کے بعد اس مسئلے میں دونوں طرح سے جواز معلوم ہوتا ہے یعنی پڑھ بھی سکتے ہیں اور نہ بھی پڑھیں تو جائز ہے بلکہ امام شوکانی نے نہ پڑھنے کو افضل و احوط قرار دیا ہے کیونکہ حدیث میں یہ پہلی رکعت کے علاوہ کسی جگہ پڑھنا ثابت نہیں ہوتا۔
ھذا ما عندی

فضیلۃ الباحث نعمان خلیق حفظہ اللہ