سوال (3324)

مشایخ عظام ایک بندے کا سوال ہے کہ غیر مسلموں کی چیزوں کا بائیکاٹ کس حد تک ہونا چاہیے، جیسے آج کل یہودیوں کی چیزوں کا بائیکاٹ کیا جاتا ہے اور اس پر تحریک چلائی جاتی ہے تو ہمارے معاشرے میں یہودیوں کی سینکڑوں کمپنیاں ہیں اور ان میں ہزاروں مسلمان کام کرتے ہیں، ان کا روزگار انہیں کمپنیوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے، اب اگر وہ ان کو چھوڑتے ہیں تو وہ ان کا روزگار ختم ہو جاتا ہے اور ویسے بھی ہمارے معاشرے میں روزگار کے اتنے وسائل نہیں ہیں، تو اسی طرح عیسائیوں کی کئی کمپنیاں ہیں، عیسائیوں کی چیزیں ہیں، وہ بھی مسلمانوں کو نقصان پہنچاتے ہیں، یہودیوں کی مدد کرتے ہیں، اور اسی طرح ہندو ہیں، وہ بھی کشمیر وغیرہ میں مسلمانوں پر ظلم کرتے ہیں تو اس طرح تو پھر سارے ہی غیر مسلم مسلمانوں کو کسی نہ کسی طریقے سے نقصان پہنچا رہے ہیں تو ہم کن کن کی کن کن چیزوں کو کا بائیکاٹ کریں گے، تو بائیکاٹ کی کون سی صورت اپنانی چاہیے کس طرح کرنا چاہیے، اس میں کئی ایک مسائل ہیں، اس حوالے سے رہنمائی درکار ہے۔

جواب

على قدر الاستطاعة اور بحسب التقوى جس قدر اور جتنا بائیکاٹ ہو سکتا ہے کرنا چاہیے۔
باقی کفار، یہود ونصاریٰ کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کرنا اصلا جائز و مباح ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی صحیح میں باب باندھا ہے:

باب الشراء و البيع مع المشركين و أهل الحرب

اور اس کے تحت عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کی روایت لائے ہیں۔
اسی لیے ان تعلقات کے حوالے سے علماء نے دو صورتیں بیان کی ہیں:
(1) کہ حسب استطاعت ان کا بائیکاٹ کیا جائے۔
(2) کہ اصل کو بنیاد بناتے ہوئے ان تعلقات کو برقرار رکھا جائے۔
والله تعالى أعلم والرد إليه أسلم

فضیلۃ الباحث ابو دحیم محمد رضوان ناصر حفظہ اللہ