سوال
ہم چائنہ میں اسٹور سے گوشت خرید کر کھاتے ہیں، لیکن ہمیں معلوم نہیں ہوتا کہ اسے کس طرح ذبح کیا گیا ہے، آیا اس پر بسم اللہ پڑھی گئی ہے یا نہیں۔ یہاں زندہ مرغی آسانی سے دستیاب نہیں، اور اگر مل بھی جائے تو اسے ذبح کر کے صاف کرنا اور گوشت تیار کرنا ہمارے لیے مشکل ہوتا ہے۔
اسی طرح یہاں مسلم ریسٹورنٹس بھی دو تین ہی ہیں، باقی جگہوں سے اگر فاسٹ فوڈ وغیرہ کھائیں تو اس میں گوشت شامل ہوتا ہے، اور ہمیں اس کے بارے میں بھی علم نہیں ہوتا کہ یہ گوشت کہاں سے آیا ہے، اسے کس نے اور کیسے ذبح کیا ہے۔
برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں کہ اس صورتحال میں شریعت کا کیا حکم ہے اور ہم کیا لائحہ عمل اختیار کریں؟
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
اگر کسی جگہ سے گوشت خریدتے یا کھاتے وقت یہ علم نہ ہو کہ ذبح کرنے والا کون ہے اور کس طریقے سے ذبح کیا گیا ہے، تو شریعت کا اصول یہ ہے کہ جب تک غالب گمان ہو کہ ذبیحے کو تکبیر پڑھ کر شرعی طریقہ کار کے مطابق ہی ذبح کیا گیا ہے، تو اسے کھانے میں کوئی قباحت اور حرج نہیں۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
“أَنَّ قَوْمًا قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ قَوْمًا يَأْتُونَنَا بِاللَّحْمِ، لَا نَدْرِي أَذَكَرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ أَمْ لَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : سَمُّوا اللَّهَ عَلَيْهِ وَكُلُوهُ”. [صحیح البخاری: 2057]
’’کچھ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! بہت سے لوگ ہمارے یہاں گوشت لاتے ہیں۔ ہمیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اللہ کا نام انہوں نے ذبح کے وقت لیا تھا یا نہیں؟ اس پر رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم بسم اللہ پڑھ کے اسے کھا لیا کرو‘‘۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب واضح طور پر یہ علم نہ ہو کہ جان بوجھ کر اللہ کا نام چھوڑا گیا ہے اور غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہے، تب تک اسے کھانے کا جواز ہے۔
اسی طرح اگر کسی مسلم ملک یا مسلمان شخص کا ذبیحہ ہو، یا کوئی ایسی مسلم یا یہود و نصاری کی کمپنی ہو جن کے بارے میں ظن غالب یہی ہو کہ وہ شرعی طریقے سے ذبح کرتے ہیں، تو ایسے گوشت کے کھانے میں کوئی حرج نہیں۔ جیسے پاکستان وغیرہ میں عام طور پر لوگ اسٹورز سے گوشت خرید کر بلا تحقیق کھا لیتے ہیں، کیونکہ وہاں یہ غالب گمان ہوتا ہے کہ اسکو شرعی طریقے کے مطابق ہی ذبح کیا گیا ہوگا۔
اسی طرح اگر گوشت کسی اہل کتاب (یہودی یا نصرانی) کا ہو، تو ان کا ذبیحہ بھی حلال ہے، بشرطیکہ غالب گمان ہو کہ ذبیحہ شرعی طریقے سے ذبح کیا گیا ہے۔
ارشادِ باری تعالی ہے:
“اَلۡيَوۡمَ اُحِلَّ لَـكُمُ الطَّيِّبٰتُ ؕ وَطَعَامُ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوۡا الۡكِتٰبَ حِلٌّ لَّـکُمۡ ۖ وَطَعَامُكُمۡ حِلٌّ لَّهُمۡ”. [المائدة: 5]
’’آج تمہارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں اور ان لوگوں کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے جنہیں کتاب دی گئی اور تمہارا کھانا ان کے لیے حلال ہے‘‘۔
لیکن اگر ذبیحہ کسی غیر مسلم کمپنی یا غیر مسلم (آتش پرست، بدھ مت یا دہریہ) وغیرہ کا ہو یا اس کے شرعی طریقے کے مطابق ذبح ہونے کے بارے میں اطمینان نہ ہو، مثلا: یہ واضح ہو کہ اسے جھٹکے، مشین یا کسی اور غیر شرعی طریقے سے ذبح کیا گیا ہے، تو ایسا گوشت کھانا جائز نہیں۔
لہٰذا آپ جہاں سے گوشت خریدتے یا کھاتے ہیں، ان سے معلومات لینے کی کوشش کریں کہ گوشت کہاں سے آتا ہے؟
اگر وہ مسلمان ہوں اور کہیں کہ ہم خود ذبح کرتے ہیں، تو ان کا ذبیحہ بلا جھجک کھایا جا سکتا ہے۔
لیکن اگر وہ کہیں کہ گوشت کسی اور کمپنی سے آتا ہے، اور وہ غیر مسلم ہوں یا اس کے بارے میں شرعی طریقے کے مطابق ذبح کا اطمینان نہ ہو، تو ایسے گوشت سے بچنا چاہیے۔
البتہ جہاں شک محض وہم کی حد تک ہو اور غالب گمان حلال ہونے کا ہو، تو بسم اللہ پڑھ کر کھا لینے کی گنجائش ہے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ