سوال (2391)

غیر مسلم علاقوں میں سکونت اختیار کرنا یا کاروباری سلسلے میں وہاں جانا شرعاً کیسا ہے اور بعض احباب سیر وتفریح کی غرض سے بھی وہاں جاتے ہیں۔ اس سے متعلق بھی رہنمائی فرمائیں۔

جواب

غیر مسلم معاشروں کی طرف سفر کرنا تین شرائط کے بغیر شرعاً جائز نہیں:
1 : انسان کے پاس دین کا اتنا ٹھوس اور پختہ علم ہو ، جس کے ذریعے وہ شکوک و شبہات کو دور کر سکے اور اپنے آپ کو (غیر اسلامی اثرات سے) بچا سکے۔
2 : وہ دینی اعتبار سے اتنا پختہ اور ثابت قدم ہو کہ شہوات اور جنسی خواہشات میں پڑنے سے بچ سکے۔
3 : وہ ان ممالک کی طرف سفر کرنے کا شدید محتاج اور ضرورت مند ہو۔
اگر یہ شرائط پوری نہ ہوں تو ایک مسلمان کے لئے غیر مسلم معاشروں کی جانب سفر کرنا اس لئے جائز نہیں کہ ایک تو اس کے’فتنہ’ میں واقع ہوجانے کا ڈر ہے اور دوسرے: سراسر نافرمانی کے اس سفر میں بہت سا مال بھی ضائع ہوجاتا ہے، اس لئے کہ انسان ان جیسے سفروں میں بہت زیادہ مال و دولت بلاضرورت خرچ کر بیٹھتا ہے۔
اگر انسان کو کسی اشد ضرورت کی بنا پر سفر کرنا پڑ جائے، جیسے علاج یاآپریشن کی غرض سے یا ایسے جدید منفعت بخش علوم کے حصول کے لئے جو اس کے اپنے ملک میں ناپید ہوں (بشرطیکہ اس کے پاس اس حد تک علم اور دینی و روحانی قوت بھی ہو، جو اسے غیر مسلم تہذیب کے اثرات سے محفوظ رکھ سکے) جیساکہ ہم نے قبل ازیں بیان کیا ہے تو ایسی صورت میں سفر کی ممانعت نہیں۔
لیکن اگر یہی سفر کفار و مشرکین کے ممالک کی محض سیروسیاحت کے لئے ہو، کسی اور ضرورت و مصلحت کی بنا پر نہیں، ایسے ہی اسی سیروتفریح کی غرض سے کسی اسلامی ملک میں سفر کرنا اس کے بس میں ہو جہاں شعائر ِاسلام کی پاسداری کرنے والے کثرت سے ہوں ، تو ایسی صورتِ حال میں غیر مسلم ملک میں جانا جائز نہیں، جبکہ آج کے دور میں مسلمانوں کے شہر اور ممالک سیروسیاحت کے اعتبار سے بہت ہی موزوں اور مناسب ہیں، لہٰذا ایک مسلمان کے لئے یہ زیادہ مناسب ہے کہ وہ کچھ وقت کے لئے ایسے ممالک کا رخ کرے جہاں وہ ایام تعطیلات گزار کر اپنا جی بہلا سکے۔
جہاں تک ایک مسلمان کے لئے بلاد ِکفرو شرک میں مستقل سکونت اختیار کرنے کا تعلق ہے، تو اس سے مسلمان کے دین، اس کے آداب و اخلاق اور کردار پر خوفناک اور تباہ کن نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ ہم نے خود اور کئی دیگر لوگوں نے متعدد اشخاص کو وہاں رہتے ہوئے، دین سے منحرف ہوکر یافسق و فجور میں لت پت ہو کر، یا پھر اپنے دین سے مرتد ہوکر واپس لوٹتے دیکھا ہے۔اوران کی دین و مذہب سے نفرت کا یہ عالم ہوا کہ وہ اپنے دین سے ہاتھ دھونے کے ساتھ ساتھ بقیہ تمام ادیان و مذاہب کے بھی نہ صرف منکر ہوئے بلکہ اس دین سے وابستہ ہونے والی پاکیزہ ہستیاں (ٱلسَّـٰبِقُونَ ٱلْأَوَّلُونَ)اور متاخرین میں سے جو اسلام لائے، سب کے سب ان ملحدوں اور مرتدوں کے استہزا اور مذاق کا نشانہ بنے، اور یہ صورت حال اب تک جاری ہے۔
اسی لئے یہ بات از حد ضروری ہے کہ عام مسلمانوں کے اخلاقی تحفظ اور دینی و ایمانی تشخص کی بقا کے لئے ٹھوس اور مضبوط اقدامات ہونے چاہئیں اور قانونی اعتبار سے بھی ایسی شرائط وضع کی جائیں جو مسلمانوں کو ان ہلاکت خیزیوں اور تباہ کاریوں سے بچا سکیں۔
بلادِ کفر و شرک میں سکونت کی دو بنیادی شرطیں ہیں:
1) سکونت اختیار کرنے والے شخص کا دین و ایمان محفوظ و مامُون ہو، اس اعتبار سے کہ اس کے پاس اتنا مضبوط علم و ایمان اور عزیمت کی قوت و طاقت موجود ہو، جس کی بنا پر وہ اپنے دین پر ثابت قدم رہ سکے اور انحراف و گمراہی سے بھی بچ سکے، اور ساتھ ہی ساتھ اہل کفر کی محبت اور ان سے دوستانہ تعلقات سے دور رہتے ہوئے، ان سے نفرت اور عداوت کو اپنے دل میں سمائے رکھے، اس لئے کہ کفار و مشرکین سے محبت و عقیدت رکھنا اور ان سے تعلقات استوار رکھنا، ایمان کے منافی اُمور میں سے ہے۔
2 ) سکونت پذیر شخص کے لئے دارالکفر والشرک میں اپنے دین و ایمان کاکھلے عام اظہار ممکن ہو، اس طرح سے کہ وہ بغیر کسی ممانعت کے دین کے شعائر کا اہتمام اور اس پر عمل پیرا ہونے کا ہر طرح سے مجاز ہو، مثلاً اگر وہاں اس کے ساتھدوسرے مسلمان بھی ہوں تو اسے ان کے ساتھ فر ض نمازوں کو باجماعت اور جمعة المبارک کی نماز ادا کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ اسی طرح اسے دیگر ارکانِ دین ،یعنی زکوٰة، روزے اور حج وغیرہ کی ادائیگی کی ممانعت نہ ہو، اگر ایسا ممکن نہیں تو ان حالات میں چونکہ اس پر ہجرت واجب ہے لہٰذا اس کا کفار ومشرکین کے ملک میں ٹھہرنا بھی جائز نہیں۔
پہلی صورت:
آدمی ‘دارِکفر’ میں لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دینے اور راغب کرنے کے لئے رہائش اختیار کرے۔ ایسی صورت میں اس کا یہ فعل جہاد کی ایک قسم ہے، البتہ ا س صورت میں دین اسلام کی دعوت دینے کے لئے اس کا ضروری علم ہونا لازمی ہے۔
دوسری صورت :
دوسری صورت میں یہ نوعیت بھی شامل ہے کہ کوئی مسلمان شخص، غیر مسلم معاشروں میں محض اس غرض سے ٹھہرے کہ وہاں رہ کر وہ مسلمانوں کے حق میں کفار اور دشمنانِ اسلام کی جاسوسی کے فرائض انجام دے سکے اور ان کی تیار کردہ خفیہ سازشوں اور دسیسہ کاریوں سے اہل اسلام کو متنبہ کرسکے ،جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ خندق میں ، حضرت حذیفہ بن یمان 5 کو مشرکوں کی طرف بھیجا تھا تاکہ وہ ان کی (جنگی چالوں اور) سرگرمیوں کی خبریں معلوم کرسکیں۔۔
تیسری صورت:
وہ شخص ‘مسلمان ملک’ یا اسلامی ریاست کی ضرورت اور غیر مسلم ممالک کے ساتھ انتظامی اُمور کو منظم اور مربوط کرنے کی خاطر مقیم ہو، جیسے سفارتخانوں کے ملازمین یا عملہ ہے، تو ان کا حکم بھی مذکورہ شخص کے حکم جیسا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص ‘اسلامی ثقافت’ کا ترجمان اور ماہر ذمہ دار ہو اور وہ غیر مسلم ملک میں اس مقصد کے لئے رہتا ہے کہ وہاں مسلمان طلبا کے حالات اور ان کی دن رات کی سرگرمیوں پرنظر رکھتے ہوئے، اُن کی اخلاقی اقدارو روایات کی نگرانی کر سکے اور ہمہ وقت ان کو دین ِاسلام کی پاسداری کرنے ،انہیں دین کے آداب و اخلاقیات کو اپنائے رکھنے اور ہمہ وقت اورہرجگہ اپنا اسلامی تشخص برقرار رکھنے کی ترغیب دلا سکے ہے۔ توایسے شخص کے وہاں رہنے سے جہاں ایک بہت بڑی مصلحت اور منفعت حاصل ہوگی ،وہاں ایک بڑے شر اور فساد کا خاتمہ بھی ممکن ہو سکے گا۔
چوتھی صورت:
آدمی کسی خاص اور جائز ضرورت کی خاطر وہاں ٹھہرے،مثلاً تجارت (کاروبار) یا علاج وغیرہ کی غرض سے، تو ایسے حالات میں ضرورت پوری ہونے تک وہاں ٹھہرنا جائز ہے۔اہل علم حضرات نے کاروباری مقاصد کی خاطر کافر ملک میں ٹھہرنے یا اس کی طرف سفر کرنے کو جائز قرار دیا ہے اور اُنہوں نے اس کی دلیل بعض صحابہ کرام7 کے آثار و واقعات سے لی ہے۔واضح رہے کہ سکونت کی یہ نوعیت عارضی ہے،ضرورت مکمل ہونے پر اس مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ‘دار الاسلام’ میں واپس پلٹ آئے۔
پانچویں صورت:
آدمی کسی کافر ملک میں تحصیل علم اور علم کے کسی شعبہ میں تحقیق و تدریس کے لئے ٹھہرے اور یہ صورت سابقہ ضرورت کی ہی ایک قسم ہے کہ جہاں انسان کسی ضرورت کے پیش نظر مقیم ہو، البتہ بعض پہلووں سے یہ سابقہ شکل کی نسبت زیادہ خطرناک، اور سکونت پذیر مسلمان شخص کے دینی اور اخلاقی اقدار کی پامالی کے اعتبار سے زیادہ سنگین بھی ہو سکتی ہے۔
چھٹی صورت:
کوئی شخص باقاعدہ کفار و مشرکین کے درمیان رہائش اختیار کرلے (یا کوئی طالب علم، کفار و مشرکین کے ساتھ تعلیمی ادارے میں سکونت اختیار کرے) تو ایسی اقامت، پہلی ذکر کردہ صورتوں سے اس لئے زیادہ خطرناک اور بڑی نقصان دہ ہے کہ اہل کفر کے ساتھ مکمل اختلاط سے بڑا فتنہ و فساد جنم لے گا، اور پھر اس شخص کا یہ تصور کہ یہ لوگ یہاں کے مقامی باشندے ہونے کے ساتھ ساتھ تعداد میں بھی زیادہ ہیں ، اور ان کے ساتھ لین دین، مودّت ومحبت رکھنا اور ان کے رسم و رواج کو اپنانا، یہاں ان کے وطن میں رہنے کے لئے اُس کی ایک مجبوری ہے، اور ان کے درمیان سکونت کا تقاضا بھی ۔ توانجام کار یہ ہوگا کہ اس کے اِہل خانہ کفار کے درمیان پروان چڑھیں گے، جہاں ( نہ چاہتے ہوئے بھی) وہ ان کے طرزِ حیات، اخلاق و عادات اور غیر اسلامی رسومات کو اپنالیں گے، اور بسا اوقات تو دینی معاملات اور خاص طور پر عقائد و عبادات میں بھی ان کی بدعات و خرافات میں آنکھیں بند کئے پیروی کریں گے۔
واللہ اعلم باالصواب

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ