سوال (3209)
میں امریکہ میں رہتا ہوں اور گھر والے اور بیوی مجھے زور دے رہے ہیں کہ امریکہ کی شہریت لوں تاکہ بیوی جلد پاکستان سے میرے پاس امریکہ آ جائے۔ لیکن امریکن شہریت لینے کے لئے ان سے ان الفاظ کے ساتھ ہاتھ اٹھا کر بیعت لینی ہوگی، کیا یہ جائز ہے؟
“میں حلف کے ساتھ یہ اعلان کرتا ہوں کہ میں کسی بھی غیر ملکی شہزادے، طاقتور، ریاست، یا خودمختاری، جس کا میں اس سے پہلے ایک رعایا یا شہری رہا ہوں، اس سے مکمل طور پر اور مکمل طور پر بيعت اور وفاداری کو ترک کرتا ہوں کہ میں ریاست متحدہ امریکہ کے آئین اور قوانین کی حمایت اور دفاع کروں گا تمام دشمنوں بیرونی اور ملکیوں کے خلاف، کہ میں اسی کے ساتھ سچا ایمان اور وفاداری رکھوں گا، کہ جب قانون کی ضرورت ہو گی میں امریکہ کی طرف سے ہتھیار اٹھاؤں گا، کہ میں قانون کے مطابق ریاستہائے متحدہ امریکہ کی مسلح افواج میں غیر جنگی خدمات انجام دوں گا، کہ جب قانون کی ضرورت ہو گی میں شہری رہنمائی کے تحت قومی اہمیت کا کام کروں گا، کہ میں اس ذمہ داری کو آزادانہ طور پر ادا کرتا ہوں، بغیر کسی ذہنی ریزرویشن یا چوری کے مقصد کے۔ تو خدا میری مدد کرو۔”
جواب
ایک مسلم کے لیے سب سے بڑھ کر ایمان و دین ہے، قیامت کی نشانیوں میں یہ مذکور ہے کہ قیامت کے قریب لوگ اپنے دین کو بچانے کے لیے جنگلوں کی طرف رخ کریں گے، اپنی بکریوں پر قناعت کریں گے، قلت مال پر گذارا کریں گے، ہمارے ہاں اس مسئلے کو صحیح طور پر نہیں سمجھتے ہیں، اس لیے دار الکفر میں رہ رہے ہیں، دین اسلام کی رو سے یہ عمل درست نہیں ہے، ہماری رائے یہ ہوگی کہ اپنے ایمان کو بچانے کے لیے وہاں سے نکلنے کی کوشش کرے، نہ کہ شہریت حاصل کرنے کی کوشش کرے، دین اسلام کی رو سے مسلمانوں کو مسلم ممالک میں رہنا چاہیے، اگر ضرورت پڑے تو ایک مسلم ملک سے دوسرے مسلم ملک چلا جائے، باقی دار الکفر میں دنیا پرستی کے لیے رہنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
اس حلف نامہ کی کئی ایک عبارات اسلام کے مقاصد کے خلاف ہے اور ان کو من وعن تسلیم کرنا اور ان پر بوقت ضرورت عمل کرنے میں کئی ایک مفاسد پنہاں ہیں۔ لہذا اس سائل کا یہ حلف اٹھایا جائز نہیں ہے۔
اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:
أنا بريء من كل مسلم يقيم بين أظهر المشركين۔
اور بیعت لینے والی حدیث میں ہے کہ: ۔۔۔۔وتفارق المشركين۔
تو ہمیں مشرکین سے دوری اختیار کرنی ہے ناکہ ان کے علاقوں میں جا کر مستقل رہائش اختیار کرنی ہے۔ اسی لیے علماء نے بلا کسی ضرورت و حاجت اور شدید مجبوری کے صرف دولت کے حصول اور معیارِ زندگی کو بلند کرنے یا معاشرے میں معزز بننے یا دوسروں پر اپنی بڑائی جتلانے کے لیے مسلم ممالک سے ہجرت کرکے غیر مسلم ممالک میں جاکر مستقل رہائش اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اس لیے کہ اس ہجرت سے دار الحرب کی دنیاوی اعتبار سے افضلیت ظاہر ہوتی ہے اور دار الاسلام کی شناخت و قومیت کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ لہذا اس سائل کا دار الحرب کو ترجیح دے کر اس غیر مسلم ملک کی شہریت و قومیت حاصل کرنا جائز نہیں ہے۔
والله تعالى أعلم والرد إليه أسلم.
فضیلۃ الباحث ابو دحیم محمد رضوان ناصر حفظہ اللہ