سوال

ہم بلادِ کفر میں رہتے ہیں، اور غیر مسلموں کے ساتھ میل جول رہتا ہے، ہمسائے ہوتے ہیں، تعلیمی اداروں میں کولیگ ہوتے ہیں، استاذ و شاگرد کا تعلق ہوتا ہے، ایک ہی کمپنی یا آفس میں کام کرتے ہیں، اسی طرح ڈاکٹر اور مریض کا تعلق ہوتا ہے، تو یہ لوگ ہمارے ساتھ بڑا حسنِ سلوک سے پیش آتے ہیں اور ہماری خوشی و غمی کے مواقع پر ہمارے ساتھ شریک ہوتے ہیں، کیا اس حسن سلوک کے بدلے میں ہم بھی انہیں ان کے تہواروں اور عیدوں (کرسمس، دیوالی وغیرہ) کے موقع پر مبارکباد یا نیک جذبات کا اظہار کر سکتے ہیں؟ کیونکہ اسلام ہمیں حسنِ اخلاق کا درس دیتا ہے۔ برائے مہربانی اس سلسلے میں قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

اسلام ایک عزت و شرف والا دین ہے، جس کی مستقل پہچان ہے، جس میں دیگر ادیانِ باطلہ سے نفرت اور بیزاری بطور عقیدہ ولاء و براء کے شامل ہے، کیونکہ توحیدِ باری تعالی اور نبوتِ محمدیہ کا انکار کرنا بہت بڑا جرم ہے، لہذا جو اللہ اور اس کے رسول کا دشمن ہے، ایک مسلمان کی اس کے ساتھ دوستی کیونکر ہو سکتی ہے! ارشادِ باری تعالی ہے:

“يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ…”.[الممتحنة:1]

“اے ایمان والو! میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ”۔

اسی طرح فرمایا:

“يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَىٰ أَوْلِيَاءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ”. [المائدہ: 51]

اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ، وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں، اور تم میں سے جو شخص ان سے دوستی کرے گا وہ انہی میں سے ہے۔ بے شک اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔

مزيد فرمایا:

“لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً”. [آلِ عمران: 28]

ایمان والے کافروں کو مؤمنوں کے بجائے اپنا دوست نہ بنائیں، اور جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں، مگر یہ کہ تم ان (کے ظلم) سے بچنے کے لیے احتیاط کرو۔

غیر مسلم عزیز رشتہ دار بھی ہوں تو ان سے محبت و مودت رکھنا درست نہیں، ارشادِ باری تعالی ہے:

“لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ”. [المجادلہ: 22]

تم کبھی ایسے لوگوں کو نہ پاؤ گے جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہوں اور وہ ان لوگوں سے دوستی رکھیں جو اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی کرتے ہیں، خواہ وہ ان کے باپ، بیٹے، بھائی یا قبیلے ہی کیوں نہ ہوں۔

لہذا ایک مسلمان کے لیے جس طرح اہل اسلام کے ساتھ محبت و مودت رکھنا ضروری ہے، اسی طرح اہل کفر سے نفرت و بیزاری بھی ضروری ہے۔ غیر مسلموں کے تہواروں میں شرکت اس پر خوشی کا اظہار یا انہیں مبارکباد دینا یہ بھی محبت و مودت کی ایک صورت ہے جو کہ بالکل ناجائز ہے، اسی طرح یہ ان کے باطل عقائد و نظریات میں ان کی حمایت کی بھی ایک قسم ہے، جس سے اس کی شناعت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔

اہل کفر کی رسوم و رواج کے حوالے سے بالخصوص ارشادِ ربانی ہے:

“وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ”. [الفرقان: 72]

“اور اللہ کے بندے باطل باتوں میں شریک نہیں ہوتے۔”

کئی ایک سلف صالحین اور مفسرین  نے یہاں “الزور” کی تفسیر کفار کے مذہبی تہواروں میں شرکت بھی بیان کی ہے کہ اہل ایمان ان میں شرکت نہیں کرتے۔ (انظر: تفسیر ابن کثیر:5/614 وموسوعة التفسیر المأثور:16/198)

شرکت کی نفی سے مراد کسی بھی قسم کی شرکت ہے، جیسا کہ براہ راست اس میں شریک ہونا، ان کے ساتھ تعاون کرنا، مبارکباد دینا، خوشی کا اظہار کرنا وغیرہ، گویا اہل ایمان کی یہ شان ہے کہ وہ ان رسوم و رواج میں کسی بھی طرح شامل نہیں ہوتے۔

یہی وجہ ہے کہ سلف صالحین نے ان باتوں کا سختی سے رد کیا ہے، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:

“اجْتَنِبُوا أَعْدَاءَ اللَّهِ فِى عِيدِهِمْ”. [السنن الكبرى للبيهقي:18861]

’اللہ کے دشمنوں کی عیدوں سے بچو’۔

امام مالک وغیرہ اہل علم کا فتوی ہے کہ کافروں کے ساتھ ان کی عیدوں کے موقع پر کسی بھی قسم کا تعاون کرنا، حتی کہ کاروباری معاملات کرنا جیسا کہ انہیں گوشت، سالن، کھانا پینا، کپڑا، سواری وغیرہ کسی بھی قسم کی چیز فروخت نہ کی جائے۔ (انظر: المَدخَل لابن الحاج المالكي:2/ 47-48)

ابن قيم رحمہ اللہ نے اس پر اہل علم کا اتفاق نقل کیا ہے، فرماتے ہیں:

وأمَّا التهنئة بشعائر الكُفر المُختصَّة بِه: فحرامٌ بالاتفاق، مثل أن يهنئهم بأعيادهم وصومهم، فيقول: عيد مبارك عليك ، أو تهْنأ بهذا العيد ونحوه، فهذا إن سلم قائله من الكفر فهو من المحرمات وهو بمنزلة أن يهنئه بسجوده للصليب بل ذلك أعظم إثماً عند الله ، وأشد مقتاً من التهنئة بشرب الخمر وقتل النفس ، وارتكاب الفرج الحرام ونحوه ، وكثير ممن لا قدر للدين عنده يقع في ذلك ، ولا يدري قبح ما فعل ، فمن هنّأ عبداً بمعصية أو بدعة ، أو كفر فقد تعرض لمقت الله وسخطه . [أحكام أهل الذِّمة:1/ 205]

’کفریہ تہواروں اور رسومات پر مبارکباد دینا بالاتفاق حرام ہے جیسا کہ عید یا روزہ پر مبارکباد دینا، ایسا شخص اگر کفر سے بچ بھی گیا، تو حرام کا ضرور مرتکب ہو گا، کیونکہ یہ ایسے ہی ہے کہ کسی صلیب کے سامنے سجدہ کرنے پر مبارکباد دی جائے، اور یہ اللہ کے ہاں شراب نوشی ، قتل اور بدکاری سے بھی بڑا گناہ ہے، جن لوگوں کے ہاں دین کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی وہ ان معاملات کی قباحت سے بے خبر ہو کر ان میں مبتلا ہو جاتے ہیں، حالانکہ کسی کو نافرمانی یا بدعت پر مبارکباد دینا اللہ کی ناراضی کو دعوت دینا ہے‘۔

یہ بات بالکل واضح ہے کہ کرسمس، دیوالی وغیرہ تہواروں میں شرکت اور اس میں معاونت تو دور کی بات، ان کی مبارکباد دینا بھی درست نہیں ہے۔

ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

“قد شَرَط عليهم أمير المؤمنين عمر بن الخطاب، والصحابة، وسائر أئمة المسلمين: أنْ لا يُظهروا أعيادهم في دار المسلمين، وإنَّما يعملونها سِرًّا في مساكنهم، فكيف إذا أظهرَها المسلمون أنفسهم؟”. [كما في مجموع الفتاوى:25/ 331]

یعنی امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام کے عہد سے لیکر دیگر مسلمان حکمرانوں نے ذمی کافروں پر یہ شرط لگائی تھی کہ وہ اپنے رسوم و رواج اور عبادات کو خفیہ رکھیں گے اور اس کا اعلانیہ اظہار نہیں کریں گے، لہذا یہ کتنی سنگین بات ہو گی کہ مسلمان بذات خود ان کفریہ شعائر کا اظہار کرنا شروع کر دیں!

جہاں تک یہ بات ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا تو اس حوالے سے شریعت نے کافروں کی دو قسمیں بیان کی ہیں:

حربی و معاند کافر اور غیر حربی امن پسند کافر، اور دونوں کا الگ الگ حکم بیان فرمایا ہے، امن پسندوں کے بارے ارشاد باری تعالی ہے:

“لَا يَنْهَاكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ”. [الممتحنۃ: 8]

“اللہ تمہیں ان لوگوں سے بھلائی اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا جو تم سے دین کے معاملے میں جنگ نہیں کرتے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالتے۔”

جبکہ معاند کافروں کے بارے فرمایا:

“إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَىٰ إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ”. [الممتحنۃ: 9]

“اللہ تمہیں ان لوگوں سے دوستی کرنے سے روکتا ہے جو تم سے دین کے معاملے میں لڑے، تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا، یا تمہارے نکالنے میں دوسروں کی مدد کی۔”

ان آیات سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ امن پسند کافروں کے ساتھ حسن سلوک اور اچھے طریقے سے رہنا جائز ہے، لہذا دنیاوی معاملات کے اندر ان کے ساتھ خیر و بھلائی کا معاملہ کرنا اس میں کوئی حرج نہیں، بلکہ اگر ان کے قبول اسلام کی امید ہے تو یہ مستحسن امر ہے، اسی طرح اگر وہ مسلمانوں کے ساتھ اچھا معاملہ کرتے ہیں تو مقابلے میں ان سے بہترین معاملہ کرنا، اسلام اس کی ترغیب دیتا ہے۔

لیکن ان سب چیزوں کا تعلق دنیاوی معاملات میں تعامل کے ساتھ ہے، مذہبی اور دینی معاملات میں شریعت کی طرف سے ایک فیصد بھی گنجائش نہیں ہے، جیسا کہ اوپر سلف صالحین اور علماء سے نقل کیا گیا کہ ان کے رسومات اور تہواروں میں شرکت، تعاون اور مبارکبادی بالاتفاق حرام اور ممنوع ہے۔

خیرسگالی اور رواداری دنیاوی معاملات میں ہو سکتی ہے، لیکن دینی معاملات میں اگر کوئی کافر ہماری عید کے موقع پر ہمیں مبارکباد دے تو بدلے میں اسے مبارکباد دینا درست نہیں، بالکل اسی طرح اگر کوئی کافر ہماری عید نماز پڑھے تو بدلے میں ہم ان کی عبادت میں شریک نہیں ہوں گے، کوئی کہے کہ میں تمہاری مسجد میں آتا ہو، تم میرے معبد خانے میں آؤ، اس قسم کی رواداری کی شریعت میں بالکل گنجائش نہیں،  کیونکہ اسلام دین حق ہے، جس کے اپنی مبادیات اور ثوابت ہیں، یہ کوئی کاروبار یا بزنس نہیں ہے کہ تم ہم سے خرید و فروخت کرو، ہم تم سے کریں گے۔

اس قسم کی سوچ ان لوگوں کی ہوتی ہے جنہیں اسلام کے دین حق ہونے میں شرح صدر نہیں ہے، لہذا وہ عقائد و عبادات کے معاملے میں قرآن وسنت کے دلائل اور سلف صالحین کے تعامل کے ساتھ کھڑے ہونے کی بجائے غیروں سے مرعوب ہو کر اس سطح پر آ جاتے ہیں کہ کچھ آپ ہماری مان لیں کچھ ہم آپ کی مان لیتے ہیں۔ دین میں اس قسم کی رواداری وہاں ہو گی جہاں دونوں طرف اہل حق ہوں اور ان میں اختلاف اجتہادی مسائل میں ہو، جہاں دوسری طرف سراسر باطل ہے، وہاں اس قسم کا معاملہ دین اسلام سے انحراف بلکہ خروج کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اللہ تعالی سب کو ہدایت پر قائم و دائم رکھے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ