سوال (358)

غیر پھلدار درخت اگر کاٹ کر بیچے جائیں تو کیا ان میں کوئی زکوة یا عشر كا معاملہ ہے؟

جواب

ان درختوں پر تو زکوۃ نہیں ہے ، البتہ اگر یہ مستقل آپ کا کام ہے ، تو یہ مال تجارت ان کو بنایا جا سکتا ہے اور یہ بلکہ بنتے ہی مال تجارت ہیں ، تو اس کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے بعض اوقات تو بیچا کھایا پیا ختم ہو گیا گھر بنالیا ، شادی کر لی ، حج کرلیا ، گاڑی لے لی اورختم ہو جاتا ہے، بعض اوقات بڑے پیمانے پر ہوتا ہے تو بچت بھی ہوتی ہے مال باقی بھی رہ جاتا ہے تو اس سے لین دین بھی ہوتا ہے تو پھر اس کا طریقہ کار یہ ہوگا کہ آپ نے جتنی رقم سے یہ کام شروع کیا ہے ، سال گزرنے کے بعد آپ یہ دیکھیں کہ آپ کے پاس اس رقم کا مال کتنا ہے ، اس کی قیمت لگائیں جو موجود مال پر ہے ، جو بھی قیمت ہو سامنے آجائے گی ، بچے ہوئے موجودہ مال کی قیمت لگا لیں ، پھر جو آپ نے ادھار مال دیا ہے اور اس کے پیسے ملنے والے ہیں ، ملنے کی قوی امید ہے ، وہ اس میں ایڈ کر دیں آپ اسی طرح جو آمدنی ہوئی تھی اس میں سے خرچے میں سے کچھ بچ گیا ہے سال کے آخر میں بینک میں رکھا ہے یا کہیں اور رکھا ہے ، وہ اس میں شامل کردیں ، اب ان تینوں کو جمع کر لیں ، یہ ٹوٹل نکال لیں اس میں سے وہ نکال دیں جو آپ نے لوگوں کا دینا ہے ، ظاہر سی بات ہے کہ انسان مال ادھار لیتا ہے تو دیتا بھی ہے ، تو وہ جو آپ نے دینا ہے وہ نکال دیں گے ، پھر جو رقم بچے گی اگر وہ اتنی ہے کہ ساڑھے باون تولہ چاندی اس سے خریدی جا سکتی ہے تو اس رقم پر یا اس سے زیادہ رقم پھر آپ 2.5 کے حساب سے زکوۃ ادا کریں گے تو مال تجارت کی زکوۃ پر اس طرح زکوۃ نکالی جاتی ہے ۔ عشر اور نصف العشر کی شکل میں یہ معاملہ نہیں ہوگا بلکہ آپ زکوۃ اس طرح نکالیں گے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ