سوال (3023)

(1) : غیر اللہ کی پکار کب جائز اور کب کہاں ناجائز ہے، دائرہ کار بیان کیجیے
(2) : فوق الاسباب اور مافوق الاسباب استعانت اور استغاثہ میں کیا فرق ہے؟ واضح کیجیے، فوق اور مافوق کی اصطلاحات کیا آئمہ اسلاف نے استعمال کی ہیں، کسی اہل سنت عقیدہ کی کتاب سے بحوالہ جواب دیں۔

جواب

استعانت اور دعا عام ہیں
مگر استغاثہ خاص ہے آدمی جب کرب و تکلیف کے لمحات میں پکارتا ہے تو یہ استغاثہ ہے۔
جیسے موسی علیہ السلام نے جب دیکھا کہ دو آدمی لڑ رہے ہیں تو وہاں ہے کہ موسیٰ کی قوم والے نے موسیٰ سے استغاثہ کیا
یعنی “چھڑائیں یار”
یہ دنیا آپسی تعلق،امداد تعاون اور حقوق کی ادائیگی اور ذمہ داری کے احساس سے قائم کی گئی ہے
انسانوں کو محدود وسائل و قوی بخشے گئے ہیں
اور انہیں صرف کرنے کی حکمتِ عملی اور تدبیر بھی سجھائی گئی ہے
اسی کو تحت الاسباب کا نام دیا گیا ہے
جیسے ہم انسان ایک دوسرے سے مدد بھی مانگتے ہیں استغاثہ بھی کرتے ہیں اور تعاون بھی۔
لیکن ان چیزوں سے یہ مظاہر عبادات نہیں بنتے
کیونکہ تعظیم،محبت خشیت ثواب کی امید خوف انابت رضا کا حصول جیسے اصول ان مظاہر کے پیچھے موجود نہیں ہوتے۔
یہ پکار تب شرک بنتی ہے جب آپ اسے عبادت کے طریق پر کرتے ہیں
جیسے ایک آدمی صاحب قبر کو پکار رہا ہے
کیوں…؟!
کیونکہ وہ اس کے بارے وہ عقیدہ رکھتا ہے جس کا ایک عام انسان متحمل نہیں
اس کے بارے ان صفات کو ثابت کرتا ہے جو کسی بشر میں ہو ہی نہیں سکتیں
جیسے دور و نزدیک سے جان (علم) لینا، بغیر اسباب کے فایدہ پہنچا دینا یا نقصان پہنچا دینا
دلوں کی بھید جان لینا،ہر ایک کی، ہر وقت ہر زبان میں سن لینا وغیرہ(اسے ہی فوق الاسباب کا نام دیا گیا)
پھر وہ اس عقیدے کے بعد اسے اس محبت اور امید اس انابت اس خوف اور خشیت اس دلی کیفیت اور جذبات سے پکارتا ہے جو اللہ کو پکارتے ہوئے کسی موحد اور صاحب ایمان کے ہاں ہوتے ہیں
پرانے وقتوں میں شرک اس طرح سے امت میں نہیں در آیا تھا جیسے آج یا کچھ صدیوں سے شروع ہوا
تو پہلے آئمہ کی کتب میں توحید کی اس خرابی پر تنبیہ کے لئے زیادہ رہنمائی ملتی ہے جو ان کے زمانے میں تھیں جیسے توحید اسمائے و صفات الہٰی
جیسے جیسے امت میں یہ خرابی جس کی بابت سوال ہوا ہے آئی تو علماء نے یہ اصطلاحات استعمال کی ہیں اور توحید کے قضیے کو ہر اعتبار سے واضح کیا ہے۔
دوسرا اصطلاح مقرر کرنے میں کوئی سختی نہیں لہذا اگر متاخرین نے قرآن و سنت کے مضامین کی وضاحت کے لئے اصطلاحات مقرر کی ہیں تو ان میں جھگڑنے کی بجائے اس مدعی کو سمجھنے کی ضرورت ہے جو اس بابت مقصود ہے

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ