سوال (4351)

ایک بندہ کچھ رقم غلط طریقے مطلب حرام طریقے سے کماتا ہے پھر جلد ہی اس کو اپنی غلطی کا احساس ہو جاتا ہے؟ اب وہ اس رقم کا کیا کرے؟

جواب

یہ سوال بہت اہم اور نیت کی اصلاح کا مظہر ہے، اگر کوئی شخص حرام طریقے (جیسے سود، رشوت، چوری، دھوکہ، حرام کاروبار وغیرہ) سے مال حاصل کرے اور بعد میں توبہ کر لے، تو اس پر شرعاً درج ذیل ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں:
اللہ تعالیٰ کے حضور ندامت کے ساتھ توبہ ضروری ہے، جس کے تین شرائط معروف ہیں۔
حرام مال کو واپس کرنا یا صدقہ کر دینا۔حرام مال اگر کسی کا حق مارا ہے (چوری، دھوکہ وغیرہ) تو اسی مالک کو لوٹانا فرض ہے، اگر وہ دستیاب ہو۔ ناجائز طریقے سے کمایا ہو (جیسے سود، رشوت، حرام کاروبار وغیرہ) اور مالک معلوم نہ ہو، تو وہ مال صدقہ کر دیا جائے کسی مستحق کو بغیر کسی اجر یا ثواب کی نیت کے، بلکہ صرف مالِ حرام سے چھٹکارے کی نیت سے۔ حرام مال کو اپنے استعمال میں رکھنا جائز نہیں توبہ کے بعد بھی وہ مال اگر اپنے پاس رکھا یا استعمال کیا جائے تو یہ توبہ کے منافی ہے۔

فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ

میں اس میں کچھ اضافہ کروں گا، حرام مال کے حوالے سے اہل علم نے اجتہادی طور پر ہمارے سامنے کچھ آراء رکھے ہیں، جیسا کہ شیخ محترم نے اوپر فرمایا ہے کہ یہ مال اس کو چاہیے کہ واپس کرے، اگر واپس کرنا ممکن نہ ہو، تو اس کو چاہیے کہ حرام کا مال حرام پر ہی نکل جائے، جیسے کسی پر سودی قرضہ چڑھا ہوا ہے تو یہ حرام کا مال سودی قرضے کے طور پر اتار دیا جائے یا اس رقم کو جھوٹے مقدمے پر خرچ کیا جائے۔

فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ