(غامدی صاحب کی مولانا آزاد رحمہ اللہ کے متعلق ایک تاریخی غلط فہمی کا ازالہ)

عہدِ حاضر میں اپنے نرم و ملائم لہجے سے سچ میں جھوٹ کی آمیزش کرتے ہوئے کمال چابکدستی سے یہ حربہ استعمال کرنے میں شاید ہی کوئی محترم جناب غامدی صاحب کا ثانی ہو… دینیات کی من چاہی یا بالفاظ دیگر فکری و عملی گمراہ حضرات کی دلپسند تشریح کرتے ہوئے شرمندہ مسلمانوں سے داد و دیش سمیٹتے ہوئے ان کے دین و ایمان پہ تیشے چلانا کوئی آپ سے سیکھے. گویا:
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں

ایسا نہیں ہے کہ کسی مضمون پرآنجناب کا مطالعہ ناقص يا ادھورا ہے بلکہ حضور کا اصل مسئلہ سوء فہم ہے جو کہ پرویزی اور فراہیدی صاحبان کی پرپیچ گلیوں سے گزرتے ہوئے موصوف کے “دل محلے” میں رہائش پذیر ہے. ابو الطیب المتنبي نے ایسے حضرات کے لئے کیا خوب پھبتی کسی ہے کہ:
وكم من عائبٍ قولا صحيحا

وآفتُهُ من الفهمِ السقيمِ

خوانندگان محترم! اس مختصر سے مضمون میں غامدی صاحب کے ایک ادھورے مگر خطرناک جھوٹ پر مبنی خود ساختہ سچ کی تردید مقصود ہے.
موصوف کذاب و دجال مرزا غلام احمد قادیانی کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ مولانا ابو الکلام آزاد نے امرتسر سے جاری ہونے والے اخبار ” وکیل” میں مرزا قادیانی کی وفات پر تعزیت کا اظہار کیا تھا.
انا للہ وانا الیہ راجعون.
اصل میں یہ ہوائی کسی دشمن کی اڑائی ہوئی نہیں ہے بلکہ اس کے لکھاری مولانا ابو الکلام آزاد کے محب صادق ” عبد المجيد سالک” ہیں جنہوں نے اسے ” یاران کہن ” کے صفحہ نمبر 29 پر ذکر کیا ہے. اگر غامدی صاحب کا مآخذ یہی کتاب ہے تو یقیناً انہوں نے اسی کتاب کا صفحہ 155 بھی ملاحظہ کیا ہوگا. اگر نہیں کیا اوراپنی اصلاح کرنا چاہیں تو ملاحظہ فرمائیں.
کتاب کی اشاعت کے بعد مولانا آزاد رحمہ اللہ کے پرسنل سیکرٹری خان محمد اجمل خاں صاحب نے اس واقعے کی تردید کی جو کہ ہفت روزہ چٹان لاہور- 13 فروری 1956ء، صفحہ 5 پہ بایں الفاظ شائع ہوئی:
مولانا عبد المجيد صاحب سالک نے ایک کتاب یاران کہن کے نام سے لکھی ہے جس میں بعض بے بنیاد باتیں مولانا کے متعلق درج ہیں. مثلاً یہ کہ مولانا، مرزا غلام احمد کی کتب سے بہت متاثر ہوئے یا جنازے کے ساتھ قادیان گئے وغیرہ. مناسب یہ ہے کہ سالک صاحب خود اس کی تردید کردیں.
“وکیل” میں مرزا غلام احمد کی وفات پر جو مقالہ افتتاحیہ چھپا تھا وہ منشی عبد المجيد کپور تھلوی کا لکھا ہوا تھا. مولانا کا اس اداریہ سے کوئی تعلق نہ تھا.
” چٹان” میں شائع شدہ اس خط کے جواب میں
مولانا عبد المجيد سالک نے ایک مکتوب اجمل خان کی جانب ارسال کیا جس میں دیگر باتوں کے علاوہ مولانا عبد المجيد سالک لکھتے ہیں :…ہو سکتا ہے کہ اس امور میں میرے حافظہ نے میرا ساتھ نہ دیا ہو اور حضرت مولانا ہی کے وہ ارشادات درست ہوں جن کی بنا پر آپ نے شورش صاحب کو مکتوب لکھا، بہرحال مجھے “یاران کہن” میں بیان کردہ واقعات کی صحت پر اصرار نہیں ہے اور میں آپ کی تردید کے آگے سر تسلیم خم کرتا ہوں.
میں دہلی میں کلاتھ مل مشاعرے میں 25 فروری کو دہلی آ رہا ہوں. ان شاء الله آستانہء عالی پر حاضر ہوکر اعتذار پیش کروں گا… حضرت مولانا کی خدمت میں آدابِ نیاز ( سالک).
اس تصریح کو پڑھنے کے بعد قارئین کرام مسٹر غامدی اور قبيلہ غامدی کے متعلق یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ:
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا

نثر نگار: حافظ عبد العزيز آزاد

حالِ دل

یہ بھی پڑھیں: آرٹیفیشل انٹیلجنس کا مسلک و مذہب کیا ہے؟