سوال (2246)

اگر کسی شخص کی داڑھی اتنی گھنی ہو کہ نیچے کی کھال نظر نہ آتی ہو، مگر داڈھی ایک مشت سے کم ہو، تو وہ وضو کے دوران کھال تک پانی پہنچائے گا یا پھر داڑھی کا صرف ظاہری حصہ دھوئے گا؟

جواب

چہرہ دھونے کا حکم ہے، اگر چہرے پر بال زیادہ ہوں، جس کی وجہ سے کھال تک پانی نہ پہنچنے کا اندیشہ ہو، اس کا طریقہ یہ ہے کہ چہرے کو مسل کے دھونا چاہیے، جو داڑھی چہرے کے ساتھ ملی ہوئی ہے، اس کو چہرے کے ساتھ دھویا جائے گا، الگ سے نہیں دھویا جائے گا، بہرکیف چہرہ توجہ سے دھونا چاہیے، باقی جو لٹکی ہوئی داڑھی ہے، اس کے لیے ایک چلو لے کر خلال کرلیا جائے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

داڑھی کا خلال کرے گا۔ واللہ اعلم
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

“أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا تَوَضَّأَ، أَخَذَ كَفًّا مِنْ مَاءٍ فَأَدْخَلَهُ تَحْتَ حَنَكِهِ فَخَلَّلَ بِهِ لِحْيَتَهُ»، وَقَالَ: «هَكَذَا أَمَرَنِي رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ” [سنن أبی داود: 145]

رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم جب وضوء فرماتے تو ایک ہتھیلی پانی کی لے کر اپنی تھوڑی کے نیچے داخل کرتے اور ا سکے ساتھ اپنی داڑھی کا خلال فرماتے۔ اور کہتے میرے رب عزوجل نے مجھے اسی طرح حکم دیا ہے۔

فضیلۃ الباحث ثناء الرحمن حفظہ اللہ

سائل:
محققین علمائے کرام سے اس روایت کی تحقیق مطلوب ہے۔
جواب:
اس میں ولید بن زوران لین الحدیث ہے، اس سلسلے کی دیگر روایات بھی کمزور ہیں، سوائے سیدنا عثمان کی روایت کے جس میں عامر بن شقیق ہے، تاہم امام بخاری رحمہ اللہ نے ترمذی کے بقول اس روایت کو احسن شیء فی الباب فرمایا ہے، البتہ اس میں چلو کا ذکر نہیں ہے۔

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

بارك الله فيكم
سیدنا انس رضی الله عنہ والی روایت ثابت ہے اور سیدنا عثمان رضی الله عنہ سے منسوب روایت علی الراجح ضعیف ہ، اس مسئلہ کی دیگر مرفوع روایات بھی ضعیف ہیں اور داڑھی کا خلال صحابہ، تابعین و سلف صالحین کے تعامل سے ثابت ہے۔
مصنف ابن أبي شيبة وغيره
ائمہ محدثین کا أحسن شيء، إسناد أحسن کہنے کا مطلب ہوتا ہے کہ یہ طریق و سند اس باب میں سب سے کم ضعف والا ہے، اس سے اصطلاحی معنی و حکم مراد نہیں ہوتا ہے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

جزاکم اللہ خیرا کثیرا شیخ، غالبا خلال کے لیے الگ سے چلو لینے کی روایت یہی ہے اور اس میں ضعف ہے، واللہ اعلم۔ اگر خلال کے لیے نیا پانی لینے کی کوئی صحیح حدیث ہو تو مشائخ راہنمائی فرمائیں

فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ

داڑھی کا خلال علماء کے نزدیک مختلف فیہ ہے۔
امام شوکانی نے نیل الاوطار میں مفصّل بحث کی ہے جو کہ یہ ہے، حسن بن صالح ، ابو ثور اور ظاہریہ کے نزدیک خلال کرنا واجب ہے، وجوب کی دلیل امرنی ربی سے لی ہے، مالک، شافعی، ثوری اور اوزاعی کے ہاں داڑھی کا خلال واجب نہیں ہے، مالک اور کچھ اہل مدینہ کہتے ہیں کہ نہ وضو میں واجب ہے نہ ہی غسل میں، ابو حنیفہ، لیث، اسحاق، داؤد ظاہری، طبری وغیرھم کا موقف ہے کہ وضو میں خلال کرنا واجب نہیں اور غسل میں واجب ہے، جبکہ کچھ دیگر اہلِ علم کے ہاں خلال کرنا نہ واجب ہے نہ ہی سنت ہے، خلال کرنے کی جتنی بھی روایات ہیں ساری ہی ضعیف ہیں، چنانچہ ابنِ حجر نے احمد بن حنبل کا قول نقل کیا ہے کہ “لیس فی تخلیل اللحیة شیء”
اور اسی طرح ابن ابی حاتم نے اپنے والد سے روایت کیا ہے:
لا یثبت عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی تخلیل اللحیة شیء.
دیکھیے ابنِ حجر کی تلخیص

فضیلۃ الباحث حنظلہ ربانی حفظہ اللہ

بہر کیف فقہاء کے نزدیک خلال وضو میں واجب نہیں ہے۔ داڑھی کے ظاہر کو دھویا جائے الا یہ کہ چہرہ نظر آئے، تب چہرے تک دھویا جائے۔

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

علامہ البانی نے “صحیح” کہا ہے۔ والسلام

فضیلۃ الباحث ثناء الرحمن حفظہ اللہ

آخری فیصلہ اس روایت کی قبولیت کا ہے۔ رد کا نہیں

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻓﻀﻴﻞ اﻟﻜﻼﻋﻲ، ﺑﺤﻤﺺ, ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻛﺜﻴﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﻴﺪ، ﻗﺎﻝ ﺣﺪﺛﻨﺎ اﺑﻦ ﺣﺮﺏ، ﻋﻦ اﻟﺰﺑﻴﺪﻱ، ﻋﻦ اﻟﺰﻫﺮﻱ، ﻋﻦ ﺃﻧﺲ، ﺃﻥ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﺧﻠﻞ ﻟﺤﻴﺘﻪ ﻓﻲ اﻟﻮﺿﻮء , ﻭﻗﺎﻝ: ﺑﻬﺬا ﺃﻣﺮﻧﻲ ﺭﺑﻲ
جزء القاضى أبى القاسم الميانجى:(23) سنده حسن و وأبو الحسين محمد بن عبيد الله بن الفضيل المعروف بابن الفضيل الكلاعي الحمصي صدوق روى عنه جماعة الثقات وخرج حديثه ابن حبان في الصحيح وقال في الثقات كتبنا عنه نسخا حسانا وله ترجمة حسنة في تاريخ دمشق : 6707
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻭاﺛﻠﺔ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ اﻟﻌﺮﻗﻲ، ﺛﻨﺎ ﻛﺜﻴﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﻴﺪ اﻟﺤﺬاء ﺃﺑﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﺮﺏ، ﻋﻦ اﻟﺰﺑﻴﺪﻱ، ﻋﻦ اﻟﺰﻫﺮﻱ، ﻋﻦ ﺃﻧﺲ ﺑﻦ ﻣﺎﻟﻚ، ﺃﻥ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺗﻮﺿﺄ، ﻓﻠﻤﺎ ﻓﺮﻍ ﻣﻦ ﻭﺿﻮءﻩ، ﺧﻠﻞ ﻟﺤﻴﺘﻪ، ﻭﻗﺎﻝ: ﻫﻜﺬا ﺃﻣﺮﻧﻲ ﺭﺑﻲ
[مسند الشاميين: 1691 حسن]
و روى عن واثلة بن الحسن الإمام للطبراني والإمام ابن عدي وروى عنه في الكامل بغير جرح
ﻓﺤﺪﺛﻨﺎﻩ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺣﻤﺸﺎﺫ اﻟﻌﺪﻝ، ﺛﻨﺎ ﻋﺒﻴﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻮاﺣﺪ، ﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻭﻫﺐ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻛﺮﻳﻤﺔ، ﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﺮﺏ، ﻋﻦ اﻟﺰﺑﻴﺪﻱ، ﻋﻦ اﻟﺰﻫﺮﻱ، ﻋﻦ ﺃﻧﺲ ﺑﻦ ﻣﺎﻟﻚ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ، ﻗﺎﻝ: ﺭﺃﻳﺖ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺗﻮﺿﺄ ﻭﺧﻠﻞ ﻟﺤﻴﺘﻪ ﺑﺄﺻﺎﺑﻌﻪ ﻣﻦ ﺗﺤﺘﻬﺎ» ، ﻭﻗﺎﻝ: ﺑﻬﺬا ﺃﻣﺮﻧﻲ ﺭﺑﻲ
[المستدرك للحاكم: 529]
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﻮﺳﻰ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ اﻟﻨﺴﺎﺋﻲ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺷﺎﺫ ﺑﻦ ﻓﻴﺎﺽ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻫﺎﺷﻢ ﺑﻦ ﺳﻌﻴﺪ، ﻋﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺯﻳﺎﺩ، ﻋﻦ ﺃﻧﺲ ﺑﻦ ﻣﺎﻟﻚ، ﻗﺎﻝ: ﻛﺎﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺇﺫا ﺗﻮﺿﺄ ﺧﻠﻞ ﻟﺤﻴﺘﻪ ﺑﺄﺻﺎﺑﻊ ﻛﻔﻴﻪ ﻭﻳﻘﻮﻝ: ﺑﻬﺬا ﺃﻣﺮﻧﻲ ﺭﺑﻲ ﺟﻞ ﻭﻋﺰ
[مجموع فيه مصنفات أبى العباس الأصم وإسماعيل الصفار: ص: 325 واللفظ له ،موضح أوهام الجمع والتفريق :2/ 525]
وقال ابن القطان الفاسي:
ﻭﻫﻮ ﻣﺎ ﺫﻛﺮ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ اﻟﺬﻫﻠﻲ، ﻓﻲ ﻛﺘﺎﺑﻪ ﻓﻲ ﻋﻠﻞ ﺣﺪﻳﺚ اﻟﺰﻫﺮﻱ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺧﺎﻟﺪ اﻟﺼﻔﺎﺭ ﻣﻦ ﺃﺻﻠﻪ ﻭﻛﺎﻥ ﺻﺪﻭﻗﺎ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﺮﺏ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ اﻟﺰﺑﻴﺪﻱ ﻋﻦ اﻟﺰﻫﺮﻱ، ﻋﻦ ﺃﻧﺲ ﺑﻦ ﻣﺎﻟﻚ ﺃﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ – ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ” ﺗﻮﺿﺄ ﻓﺄﺩﺧﻞ ﺃﺻﺎﺑﻌﻪ ﺗﺤﺖ ﻟﺤﻴﺘﻪ ﻓﺨﻠﻠﻬﺎ ﺑﺄﺻﺎﺑﻌﻪ ” ﺛﻢ ﻗﺎﻝ: ” ﻫﻜﺬا ﺃﻣﺮﻧﻲ ﺭﺑﻲ ﺟﻞ ﻭﻋﺰ
ﻫﺬا اﻹﺳﻨﺎﺩ ﺻﺤﻴﺢ، ﻭﻻ ﻳﻀﺮﻩ ﺭﻭاﻳﺔ ﻣﻦ ﺭﻭاﻩ ﻋﻦ ﻣﺤﻤﺪ
[ ﺑﻦ ﺣﺮﺏ ﻋﻦ اﻟﺰﺑﻴﺪﻱ ﺃﻧﻪ ﺑﻠﻐﻪ ﻋﻦ ﺃﻧﺲ]
ﻓﻘﺪ ﻳﺮاﺟﻊ ﻛﺘﺎﺑﻪ، ﻓﻴﻌﺮﻑ ﻣﻨﻪ ﺃﻥ اﻟﺬﻱ ﺣﺪﺛﻪ ﺑﻪ ﻫﻮ اﻟﺰﻫﺮﻱ، ﻓﻴﺤﺪﺙ ﺑﻪ، ﻓﻴﺄﺧﺬﻩ ﻋﻨﻪ اﻟﺼﻔﺎﺭ ﻭﻏﻴﺮﻩ، ﻭﻫﺬا اﻟﺬﻱ ﺃﺷﺮﺕ ﺇﻟﻴﻪ ﻫﻮ اﻟﺬﻱ اﻋﺘﻞ ﺑﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ اﻟﺬﻫﻠﻲ ﺣﻴﻦ ﺫﻛﺮﻩ.
ﻭﻧﺺ ﻛﻼﻣﻪ ﻫﻮ ﺃﻥ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻳﺰﻳﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺭﺑﻪ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﺮﺏ، ﻋﻦ اﻟﺰﺑﻴﺪﻱ ﺃﻧﻪ ﺑﻠﻐﻪ ﻋﻦ ﺃﻧﺲ ﺑﻦ ﻣﺎﻟﻚ ﺃﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ – ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺗﻮﺿﺄﻓﺄﺩﺧﻞ ﺃﺻﺎﺑﻌﻪ ﺗﺤﺖ ﻟﺤﻴﺘﻪ ”
ﻗﺎﻝ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ: اﻟﻤﺤﻔﻮﻅ ﻋﻨﺪﻧﺎ ﺣﺪﻳﺚ ﻳﺰﻳﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺭﺑﻪ، ﻭﺣﺪﻳﺚ اﻟﺼﻔﺎ ﻭاﻩ، ﻫﺬا ﻧﺺ ﻣﺎ ﻗﺎﻝ، ﻓﺎﻧﻈﺮ ﻓﻴﻪ، ﻭﻳﺰﻳﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺭﺑﻪ ﻭﺛﻘﻪ
[بيان الوهم والإيهام: 5/ 220،221]
وفي التلخيص الحبير :1/ 275،276 وصححه ابن القطان من طريق أخرى
وفي الرد على ابن القطان في كتابه بيان الوهم والإيهام للذهبي ص:54
ﻗﺎﻝ اﻟﺬﻫﻠﻲ ﻓﻲ اﻟﺰﻫﺮﻳﺎﺕ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺧﺎﻟﺪ اﻟﺼﻔﺎﺭ ﻣﻦ ﺃﺻﻠﻪ ﻭﻛﺎﻥ ﺻﺪﻭﻗﺎ ﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﺮﺏ ﺛﻨﺎ اﻟﺰﺑﻴﺪﻱ ﻋﻦ اﻟﺰﻫﺮﻱ ﻋﻦ ﺃﻧﺲ ﺃﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺗﻮﺿﺄ ﻓﺄﺩﺧﻞ ﺃﺻﺎﺑﻌﻪ ﺗﺤﺖ ﻟﺤﻴﺘﻪ ﻭﺧﻠﻞ ﺑﺄﺻﺎﺑﻌﻪ ﻭﻗﺎﻝ: ﻫﻜﺬا ﺃﻣﺮﻧﻲ ﺭﺑﻲ” ﺭﺟﺎﻟﻪ ﺛﻘﺎﺕ ﺇﻻ ﺃﻧﻪ ﻣﻌﻠﻮﻝﻗﺎﻝ اﻟﺬﻫﻠﻲ: ﺛﻨﺎ ﻳﺰﻳﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺭﺑﻪ ﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﺮﺏ ﻋﻦ اﻟﺰﺑﻴﺪﻱ ﺃﻧﻪ ﺑﻠﻐﻪ ﻋﻦ ﺃﻧﺲ ﻭﺻﺤﺤﻪ اﻟﺤﺎﻛﻢ ﻗﺒﻞ اﺑﻦ اﻟﻘﻄﺎﻥ ﺃﻳﻀﺎ ﻭﻟﻢ ﺗﻘﺪﺡ ﻫﺬﻩ اﻟﻌﻠﺔ ﻋﻨﺪﻫﻤﺎ ﻓﻴﻪ
ﻭﻓﻲ اﻟﺰﻫﺮﻳﺎﺕ ﺃﻇﻨﻬﺎ ﻟﻠﺬﻫﻠﻲ: ﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺧﺎﻟﺪ اﻟﺼﻔﺎﺭ ﻣﻦ ﺃﺻﻠﻪ – ﻭﻛﺎﻥ
ﺻﺪﻭﻗﺎ – ﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﺮﺏ، ﺛﻨﺎ اﻟﺰﺑﻴﺪﻱ، ﻋﻦ اﻟﺰﻫﺮﻱ، ﻋﻦ ﺃﻧﺲ ﺃﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ- ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ – ﺗﻮﺿﺄ ﻓﺄﺩﺧﻞ ﺃﺻﺎﺑﻌﻪ ﺗﺤﺖ ﻟﺤﻴﺘﻪ ﻓﺨﻠﻠﻬﺎ ﺛﻢ ﻗﺎﻝ: ” ﻫﻜﺬا ﺃﻣﺮﻧﻲ ﺭﺑﻲ “.
ﻓﻬﺬا ﻋﻨﺪﻱ ﺻﺤﻴﺢ ﻻ ﺗﻀﺮﻩ ﺭﻭاﻳﺔ ﻣﻦ ﺭﻭاﻩ ﻋﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﺮﺏ، ﻋﻦ اﻟﺰﺑﻴﺪﻱ، ﻗﺎﻝ: ﺑﻠﻐﻨﻲ ﻋﻦ ﺃﻧﺲ. ﻓﻠﻴﺲ ﻣﻦ ﻟﻢ ﻳﺤﻔﻆ ﺣﺠﺔ ﻋﻠﻰ ﻣﻦ ﺣﻔﻆ
ﻗﺎﻝ اﻟﺬﻫﻠﻲ: ﺛﻨﺎ ﻳﺰﻳﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺭﻳﻪ، ﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﺮﺏ ﻓﺬﻛﺮﻩ. ﻗﺎﻝ اﻟﺬﻫﻠﻲ: ﻭﻫﺬا اﻟﻤﺤﻔﻮﻅ، ﻭﺣﺪﻳﺚ اﻟﺼﻔﺎﺭ ﻭاﻩ. ﻗﻠﺖ: ﻛﻔﺎﻧﺎ اﻟﺬﻫﻠﻲ ﻣﺆﻧﺘﻚ
قلت روى عن محمد بن حرب كثير بن زيد الحذاء( ثقة) و محمد بن وهب( صدوق) ومحمد بن عبد الله بن خالد الصفار ( صدوق)بواسطة الزهري وروى يزيد بن عبد ربه بلغتي عن أنس وهذا خطاء من يزيد بن عبد ربه والصواب ما قال الثلاثة والحديث محفوظ وصحيح

یہ چند ماہ پہلے عرب مشایخ ومحققین کے مجموعہ منتدی فوائد حدیثیہ میں میری تحقیق ہے۔
ہمارے نزدیک یہ روایت موصولا صحیح ہے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ