گھر کے طاق میں رکھا سکون
اَن گنت بے قرار دل ایسے ہیں کہ جو زیست کے ہر پَل میں سرُور اور سکون کو جا بہ جا کھوجتے پھرتے ہیں۔ کرب اور ملال کے لامتناہی سلسلوں میں گھرے کروڑوں انسان، طرب کا اوج تلاشنے کے لیے لاکھوں روپے تک خرچ کر ڈالتے ہیں، مگر پیچ دار اور بل کھاتی حیات کے کسی گوشے اور کونے کُھدرے میں کیف کی کوئی خفیف سی رُوپہلی کرن تک دکھائی نہیں دیتی۔جھوٹی محبتوں کے حصول میں ایک طویل مہم جوئی کے باوجود ناکامی کے باعث درد کے مارے نوجوان خلوت نشینی اختیار کر کے حیاتِ ماضی کو کرید کرید کر سسکتے اور تڑپتے اپنے من میں اضطراب کو فزوں تر کر کے، سکون اور اطمینان حاصل کرنے کی سعیِ لا حاصل کرتے رہتے ہیں۔مال کے حریص، دولت کے رسیا اور قیمتی بنگلوں کے باسی اپنے دل کی انبساط کے لیے دن رات ایک کر دیتے ہیں، مگر سب کچھ کما لینے کے باوجود رات کے وقت گولیوں کے بغیر نیند انھیں اپنی آغوش میں لینے پر آمادہ نہیں ہوتی۔عرفان ستار کی بے چینی ملاحظہ کیجیے ؎
اک چبھن ہے کہ جو بے چین کیے رہتی ہے
ایسا لگتا ہے کہ کچھ ٹوٹ گیا ہے مجھ میں
آپ چہارسُو نظریں دوڑا لیں، آپ اپنے اعزّہ سے لے کر اقربا تک کا جائزہ لے کر آسودہ حال لوگوں کو دیکھ لیں، اکثریت ہی مصائب و آلام کی گود میں بیٹھی کراہ رہی ہو گی۔ آپ اپنے اڑوس پڑوس کے تمام گھروں کا مشاہدہ کر لیں، شاید ہی کوئی ایک بھی گھر ایسا نہ ملے جہاں ادویات کا داخلہ ممنوع ہو۔ہر کوئی اپنے گرد المیوں کی لکیریں کھینچ کر بیٹھا ہے۔ایسے دگرگوں حالات میں ہر شخص فرحت انگیز لمحات کو پالینے کے لیے سب کچھ کھپا رہا ہے مگر سکون ہے کہ انسان سے کوسوں دور ہے۔ آزاد انصاری نے کہا ہے ؎
ہم کو نہ مل سکا تو فقط اک سکونِ دل
اے زندگی وگرنہ زمانے میں کیا نہ تھا
کوئی بھی انسان خفیف سا توقف کر کے، راحت اور نشاط کے حصول کے لیے اپنی تلاش اور کشاکش پر نظر ثانی کرنے پر آمادہ نہیں، کہ آیا یہ کاوشیں مستقیم راستوں پر گامزن ہیں بھی یا نہیں؟ کوئی ایک شخص بھی یہ غور کر نے پر آمادہ نہیں کہ یہ محبتیں اور ریاضتیں مثبت سمت کی طرف ہیں یا سرابوں کے تعاقب میں اپنا سب کچھ برباد کیا جا رہا ہے۔
امریکی انسٹی ٹیوٹ البرٹ آئن سٹائن میں جینیات کے ماہر سائنس دان کا نام رابرٹ ہے۔ اس سائنس دان نے اپنی پوری زندگی ماں کے پیٹ میں بچّے کے نشوونما پانے کی مختلف کیفیات پر تحقیق کرتے ہوئے گزاری، مگر جب اس نے قرآن مقدّس میں طلاق کے بعد تین طُہر تک عدت گزارنے کی آیات پر تحقیق کی تو وہ ورطہ ء حیرت میں ڈوب گیا۔ جوں جوں وہ قرآن پڑھتا گیا، دل میں سماتا گیا اور بالآخر اس نے اپریل 2014ء میں اسلام قبو ل کر لیا۔ رابرٹ کہتا ہے کہ مجھے جو سکون قرآن پڑھ کر نصیب ہوا اس نے میری زندگی بہار آفریں بنا دی۔ انسان دنیا کے کسی بھی مذہب کا پیروکا رہو یہاں تک کہ مذاہب سے عناد وکد رکھنے والے باغی بھی اگر تمام تر حسد اور بغض دلوں سے نکال کر قرآن کا مطالعہ کر لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ان کے دلوں میں موجود تمام سوالات، اشکالات ا ور شبہات کو سکون نہ ملے۔ اگست 1997ء کو ایک ہسپانوی نے اسلام قبول کر لیا اس کا نام خالد رکھا گیا۔ اس نے بگ بینگ کی تھیوری اور قرآن پر تحقیق کی تو بے ساختہ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔ پھر اس نے بچّے کی پیدایش کا ہر مرحلہ اور اس کے دنوں کا حساب جو قرآن میں موجود تھا، اس کا جائزہ لیا تو جدید سائنس کو اس کی توثیق کرتے ہوئے پایا۔بس پھر کیا تھا، اس کے دل میں ایمان کے سَوتے پھوٹ پڑے جو اسلام قبول کرنے پر منتج ہوئے۔ آپ افریقا کے ملک یوگنڈا چلے جائیں وہاں کا شہری”جونی“ کوئی عام شخص نہ تھا بلکہ و ہ جاثم شہر میں کیتھولک عیسائیت کا داعی اور مبلغ تھا۔وہ خود کہتا ہے کہ عیسائیت کی بہت ساری باتوں سے اسے کبھی سکونِ قلب نہ ملا، اس نے جب سورہ مریم کا انگریزی ترجمہ پڑھا تو اس کے ہر اضطراب کو شفا مل گئی، اس کی تمام تر بے چینی کو تشفی حاصل ہو گئی، اس کی زبان پر کلمہ جاری ہو گیا، اس نے اپنا نام طہٰ رکھ لیا۔ آیئے! میں آپ کو خونیں اور وحشی جبر وظلم کے لیے بنائے گئے زندان گوانتا ناموبے کے کیمپ ڈیلٹا کا ایک منفرد واقعہ بتاوں۔ وہاں تعیینا ت ایک فوجی کا نام ہولڈ بروکس تھا، جب جنرل” ہُڈ ” گوانتا ناموبے کا انچارج تھا تو اس نے مسلمان قیدیوں کے سامنے قرآن کو ٹھڈے مارے، اکثر فوجی بھی قرآن کو ٹھوکریں مارتے، درندگی کی انتہائی بھیانک شکل یوں بھی ظاہر ہوئی کہ وہ مسلمانوں سے تفتیش کے دوران قرآن پر کھڑے ہو جاتے۔ پھر وہ ایسی غلاظت قرآن مجید پر پھینکتے جس کا نام نہ لکھنا ہی مناسب ہے۔ اس کے بعد امریکی فوجی قرآن کو گٹر میں بہا دیتے (نعوذ با اللّہ)، ہولڈ بروکس نے یہ تمام باتیں واشنگٹن پوسٹ میں لکھیں۔ تمام تر سفاکیت کا مظاہرہ دیکھ کر اس نے قرآن کے مطالعے کا فیصلہ کیا۔ پھر اس پر رب کی رحمتوں کی برکھائیں برسنے لگیں اور گوانتا ناموبے جیل میں قید احمدالرّشید کے ہاتھوں اسلام قبول کر لیا۔ اس کا نام مصطفیٰ عبدالرّشید ہے۔ آج بھی اس سے پوچھ کر دیکھ لیں وہ قرآن کو سکونِ قلب اور راحتِ جاں کا سبب بتلائے گا۔ امر یکا، مغرب اور یورپ میں آج بے سکونی اور بے کلی کسی حَبس کی مانند پھیل چکی ہے۔ وہ لوگ سکون کی تلاش میں مارے پھرتے ہیں ایسی حالتِ اضطراب میں جو شخص بھی تلاشِ اطمینان کے لیے قرآن کے ساتھ دوستی کر لیتا ہے پھر اس کے دل کی کایا ہی پلٹ جاتی ہے۔ امریکی پوپ سنگر میڈونا جس کی زندگی المیوں سے بھری تھی، اس نے دل کی بے چینی اور ذہنی خلفشار کی حالت میں قرآن کا مطالعہ شروع کر دیا تو زندگی میں سکون ہی سکون دَر آیا۔ بھارتی اداکار امیتابھ بچن بھی سکونِ قلب کے لیے قرآن کا مطالعہ کر چکا ہے۔ آپ یورپ کے حالات پڑھ لیں وہاں کی بدلتی رُتوں کو دیکھ کر دنگ رہ جا ئیں گے کہ برطانیہ میں ہر سال پانچ ہزار سے زائد لوگ اسلام قبول کر رہے ہیں، جن میں یورپی خواتین، مردوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔ برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر کی خواہرِ نسبتی لورین بوتھ بھی اسلام قبول کر کے سارے یورپ کو یہ پیغام دے چکی ہے کہ مادیت اور عیش کوشی میں سکون کھوجنے والو! ایسے کرتوتوں سے کبھی سرور نہیں ملے گا، اگر واقعی قرار چاہتے ہو تو قرآن پڑھو۔گناہوں کے بوجھ تلے دبے، بے سکونی میں سَر تاپا گڑے وہ مسلمان جن کے ہر گھر کے طاق اور الماری میں قرآن مجید کسی غلاف میں لپٹا رکھا ہے، انھیں خبر ہی نہیں کہ ذہنی سکون اور قلبی اطمینان تو کب سے ان کے طاق میں کسی موٹے غلاف میں موجود ہے۔ اپنی اپنی زندگیوں کو شہرِ آشوب بنا لینے والے سکون کے متلاشیو! آج ہی رات کے کسی پہر چپکے سے اٹھیے، وضو کیجیے اور طاق میں رکھے قرآن کو کھول کر تلاوت مع ترجمہ شروع کر کے اسے اپنی زندگی کا معمول بنا لیجیے۔ پُر سکون احساسات کی تونگری سے زندگی گل وگل زار ہو جائے گی، تاریک تخیّلات میں اجالے ہی اجالے ہو جائیں گے، مایوس سانسوں میں پُر مسرت نوید دَر آئیں گی، سو قدم اٹھائیے! اس طاق کی طرف جس میں قرآن مقدّس کب سے آپ کا منتظر ہے۔
( انگارے۔۔۔حیات عبداللہ )