سوال (2256)

ایک شخص کہتا ہے کہ اگر کتا گھر کے باہر باندھا ہو اور وہ بہت زیادہ وفادار ہو اور ہر طرح سے وہ گھر کی حفاظت کرتا ہو اور چوکیدار رکھنے کی استطاعت نہ ہو تو کیا کتا گھر میں رکھا جا سکتا ہے؟

جواب

گھر میں کتا رکھنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، تین صورتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی ہے،
شکار کے لیے، مویشیوں اور کھیتی باڑی کی حفاظت کے لیے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جس کسی نے مال مویشی کے تحفظ کے لیے رکھے گئے کتے یا شکاری کتے یا زراعت کی دیکھ بھال و حفاظت کرنے والے کتے کے علاوہ دوسرا کوئی کتا شوقیہ طور پر رکھا تو اس کے ثواب میں سے ہر روز ایک قیراط ثواب کم ہو جاتا ہے” [بخاری و مسلم]
شیخ صفی الرحمان مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مذکورہ بالاحدیث سے معلوم ہوا کہ دل کے بہلاوے اور شوقِ فضول کی تکمیل کے لیے کتا رکھنا ممنوع ہے، البتہ شکار کے لیے اور کھیتی باڑی اور جانوروں وغیرہ کی دیکھ بھال کے لیے رکھنے کی اجازت ہے، ان مقاصد کے سوا کسی اور مقصد کے لیے کتا رکھنے کی وجہ سے یومیہ ایک قیراط ثواب میں کمی واقع ہوتی ہے۔ [شرح بلوغ المرام حدیث نمبر: 1147]
شیخ بن باز رحمہ اللہ سے گھر کی حفاظت کے لئے رکھے گے کتے کے بارے سوال کیا گیا تو آپ نے اس سے منع فرمایا:

يقول النبي ﷺ: من اقتنى كلبًا إلا كلب صيدٍ، أو ماشية، أو زرع فإنه ينقص من أجره كل يوم قيراطان فلم يستثن إلا كلب الصيد، وكلب الماشية، وكلب الزرع.
فالذي أنصحكم به أن تبعدوا هذه الكلاب، وألا تجعلوها حرسًا لكم، أبعدوها، واجعلوا حرسًا من الرجال، إذا كان في حاجة فاجعلوا رجلًا يكون حارسًا بالأجرة، هذا هو المشروع، أما جعل الكلاب لا، الكلاب لا تقتنى إلا لأحد ثلاثة: إما للصيد، أو الماشية الغنم، أو الزرع الحرث، هذا الذي رخص فيه النبي ﷺ.
والله اعلم بالصواب۔

فضیلۃ الباحث مقصود احمد حفظہ اللہ